Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ijtiba Rizvi's Photo'

اجتبیٰ رضوی

1908 - 1991 | چھپرا, انڈیا

اجتبیٰ رضوی کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

شام ہوئی جلے چراغ اٹھ گئے راہ سے فقیر

جن کا کہیں کوئی نہیں رہ گئے رہ گزار میں

اف یہ دراز دستئ ارمان مشت خاک

محمل میں گرد پڑتی ہے لیلیٰ کہاں رہے

خرد والوں کو کہنے دو کہ ہیں سات آسماں سر پر

جنوں والو ذرا ہمت کرو بس ایک زینا ہے

پکارتی رہ گئی حقیقت پڑا رہا جستجو کا صحرا

ٹھہر گئے ہم خدا کی مسجد بنا کے کوئے بتاں سے آگے

ہمارے خوف کی خلاقیاں خدا کی پناہ

وہ بجلیاں ہیں نظر میں جو آسماں میں نہیں

یہ کیسا ماجرا ہے ہر مصور نقش حیرت ہے

تری تصویر جب کھینچی مری تصویر اتر آئی

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود

دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے

ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو

مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو

تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے

کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی

روز ازل سے آپ کی میری کیسی رسم و راہ نبھی

اول اول ہم ہوئے شیدا آخر شیدا آپ ہوئے

دیا ہے غم کہ نچوڑے کبھی کبھی دل کو

زمین چشم ہوس ورنہ کیسے تر ہوگی

اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے

یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے

فتنے جگا کے دہر میں آگ لگا کے شہر میں

جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں

میں ابھی چپ ہوں تو میخانے میں خاموشی ہے

کوئی پیغام تو دے اے لب ساغر مجھ کو

گھونگھٹ الٹو کہ تمہیں پوج کے کافر ہو جائے

دل بد بخت جو ایمان سے بھی شاد نہیں

لکھا ہوا انہی ذرات کے صحیفوں میں

مرا فسانہ ہے لیکن مری زباں میں نہیں

رستے کی دوکان پہ رہرو ایک نشانی چھوڑ چلا

جس کوزے سے پیاس بجھائی اس کوزے کو توڑ چلا

یہ ہماری آپ کی دوریاں یہ کبھی کبھی کی حضوریاں

ہیں عجب طرح کی لگاوٹیں رہ و رسم دور و دراز میں

انہی رفیقان سست رو سے برے بھلے رسم و راہ نبھتی

مگر کیا دل نے ان کا پیچھا جو ہر قدم چھوڑے جا رہے ہیں

ایسی آباد تری بزم ہے اے جان نشاط

جیسی کعبہ کی سحر جیسی خرابات کی رات

سنتے سنتے انہیں نیند آ گئی ناداں دل نے

شکوۂ ہجر کو افسانہ بنا کر چھوڑا

جینے کے لئے بلوائیں تمہیں تم مرتے دم آؤ بھیڑ لئے

جینے کی تمنا کون کرے مرنے کو تماشا کون کرے

یہ کبر و ناز اب کیا جب سر بازار تم نکلے

مگر ہاں یہ کہو بہتوں نے دیکھا کم نے پہچانا

ایک دن رندوں نے مسجد میں نماز آ کے پڑھی

دوسرے دن اسے مے خانہ بنا کر چھوڑا

اس حرص و ہوس کے میلے میں ہم جنس محبت لائے ہیں

سب سستے مال کے گاہک ہیں یہ مہنگا سودا کون کرے

ہم تو آشفتہ سری سے نہ سنورنے پائے

آپ سے کیوں نہ سنوارا گیا گیسو اپنا

روح کی گونج بنا لیتی ہے خود اپنا مقام

مجھ کو دیکھو کہ ہوا دار بھی منبر مجھ کو

زہد کی آستیں ٹٹول دیکھ کہاں صنم نہیں

سنگ سیاہ ناگزیر ورنہ حرم حرم نہیں

خدا پرستی کا بیج بو کر خودی کا دل میں فروغ دیکھو

یہیں سے جھوٹے خدا اگے ہیں بڑی خطرناک یہ زمیں ہے

دیدنی ہے یہ سراسیمگئ دیدۂ شوق

کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں

کیوں ہیں طوفان کی زد میں حرم و دیر و کنشت

ان مزاروں پہ تو مدت سے چراغاں بھی نہیں

رہ نہ سکے خودی میں مست ہو نہ سکے خدا میں جذب

مفت ہوئے ذلیل و خوار کوچۂ اعتبار میں

چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے

مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے

ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا

پکارتے ہیں کہ گونج اس پکار کی رہ جائے

دعا دعا تو کہی جائے گی اثر نہ سہی

خوب تماشا ہم کو بنایا آپ تماشا آپ ہوئے

ہم کو رسوا کرنے نکلے کیسے رسوا آپ ہوئے

معنی و صورت وحدت و کثرت ذرہ و صحرا آپ ہوئے

آپ تو کچھ ہوتے ہی نہیں تھے کہیے کیا کیا آپ ہوئے

ہزار آرزو ہو تم یقیں ہو تم گماں ہو تم

قفس نصیب روح کی امید آشیاں ہو تم

مرے ساز نفس کی خامشی پر روح کہتی ہے

نہ آئی مجھ کو نیند اور سو گیا افسانہ خواں میرا

دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات

اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے

آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی

ہم سمجھتے رہے محبت ہے

گھومتے کٹتا ہے کوچے میں ترے دن کا دن

بیٹھے کٹ جاتی ہے چوکھٹ پہ تری رات کی رات

کھنڈر میں ماہ کامل کا سنورنا اس کو کہتے ہیں

تم اترے دل میں جب دل کو بیاباں کر دیا ہم نے

خرد کو خانۂ دل کا نگہباں کر دیا ہم نے

یہ گھر آباد ہوتا اس کو ویراں کر دیا ہم نے

اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں

کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے

سجدہ وہ ہے بہ رب کعبہ

جس کو قید حرم نہیں ہے

زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا

کبھی اس سمت کو بھی بہر تماشا نکلو

دل کا حیرت کدہ ایسا کوئی ویراں بھی نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے