Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khurshid Rabbani's Photo'

خورشید ربانی

1973

خورشید ربانی کے اشعار

714
Favorite

باعتبار

اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے

نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا

وحشتیں عشق اور مجبوری

کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور

یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ

دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس کا

یہ ادا تو بتوں میں ہوتی ہے

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا

ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

وہ تغافل شعار کیا جانے

عشق تو حسن کی ضرورت ہے

خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر

مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

یہ کار محبت بھی کیا کار محبت ہے

اک حرف تمنا ہے اور اس کی پذیرائی

ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا

گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے

میں ہوں اک پیکر خیال و خواب

اور کتنی بڑی حقیقت ہوں

کس کی خاطر اجاڑ رستے پر

پھول لے کر شجر کھڑا ہوا تھا

ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے

اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا

خوابوں کی میں نے ایک عمارت بنائی اور

یادوں کا اس میں ایک دریچہ بنا لیا

ترا بخشا ہوا اک زخم پیارے

چلی ٹھنڈی ہوا جلنے لگا ہے

یہ دل کہ زرد پڑا تھا کئی زمانوں سے

میں تیرا نام لیا اور بہار آ گئی ہے

کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشیدؔ

تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو

کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی

فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

Recitation

بولیے