Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khushbir Singh Shaad's Photo'

خوشبیر سنگھ شادؔ

1954 | جالندھر, انڈیا

اہم ترین معاصر شاعروں میں شامل، عوامی مقبولیت بھی حاصل

اہم ترین معاصر شاعروں میں شامل، عوامی مقبولیت بھی حاصل

خوشبیر سنگھ شادؔ کے اشعار

4.2K
Favorite

باعتبار

رفتہ رفتہ سب تصویریں دھندلی ہونے لگتی ہیں

کتنے چہرے ایک پرانے البم میں مر جاتے ہیں

بھنور جب بھی کسی مجبور کشتی کو ڈبوتا ہے

تو اپنی بے بسی پر دور سے ساحل تڑپتا ہے

یہ سچ ہے چند لمحوں کے لئے بسمل تڑپتا ہے

پھر اس کے بعد ساری زندگی قاتل تڑپتا ہے

خوشیاں دیتے دیتے اکثر خود غم میں مر جاتے ہیں

ریشم بننے والے کیڑے ریشم میں مر جاتے ہیں

رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے

بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے

کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے

نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے

ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سر و ساماں سے رہتے ہیں

ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے

چلو اچھا ہوا آخر تمہاری نیند بھی ٹوٹی

چلو اچھا ہوا اب تم بھی خوابوں سے نکل آئے

ایک ہم ہیں کہ پرستش پہ عقیدہ ہی نہیں

اور کچھ لوگ یہاں بن کے خدا بیٹھے ہیں

اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں

کیا کہیں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں

یہ ممکن ہے تمہارا عکس ہی برہم ہو چہرے سے

اسے تم آئنے کی سرگرانی کیوں سمجھتے ہو

میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں

نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئنہ ہوں میں

کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مرا

غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ

کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ

تو مجھ سے عہد گذشتہ کا اب حساب نہ پوچھ

میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں اور کب سے

یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محو خواب نہ پوچھ

نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے

سفر دیوانگی کا عشق کی منزل سے آگے ہے

ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے

یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا

روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی

تھے جس کا مرکزی کردار ایک عمر تلک

پتہ چلا کہ اسی داستاں کے تھے ہی نہیں

رات میری آنکھوں میں کچھ عجیب چہرے تھے

اور کچھ صدائیں تھیں خامشی کے پیکر میں

میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا

فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں

روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں

آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے

تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں

اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے

اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے

اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے

میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے

میں بارہا تری یادوں میں اس طرح کھویا

کہ جیسے کوئی ندی جنگلوں میں گم ہو جائے

نئے منظر کے خوابوں سے بھی ڈر لگتا ہے ان کو

پرانے منظروں سے جن کی آنکھیں کٹ چکی ہیں

نہ جانے کتنی اذیت سے خود گزرتا ہے

یہ زخم تب کہیں جا کر نشاں بناتا ہے

شادؔ اتنی بڑھ گئی ہیں میرے دل کی وحشتیں

اب جنوں میں دشت اور گھر ایک جیسے ہو گئے

مرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں

یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے

مجھ کو سمجھ نہ پائی مری زندگی کبھی

آسانیاں مجھی سے تھیں مشکل بھی میں ہی تھا

یہ تیرا تاج نہیں ہے ہماری پگڑی ہے

یہ سر کے ساتھ ہی اترے گی سر کا حصہ ہے

بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے

مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے

کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں

پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر

ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے احساس کو

کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر

یہی قطرے بناتے ہیں کبھی تو گھاس پر موتی

کبھی شبنم کو یہ سیماب میں تبدیل کرتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے