Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeb Jalali's Photo'

شکیب جلالی

1934 - 1966 | کراچی, پاکستان

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

شکیب جلالی کے اشعار

16.1K
Favorite

باعتبار

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر

آج کے دوست کل کے بیگانے

کوئی اس دل کا حال کیا جانے

ایک خواہش ہزار تہہ خانے

ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں

مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے

ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا

زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں

پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے

آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

یوں تو سارا چمن ہمارا ہے

پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں

ایک اپنا دیا جلانے کو

تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے

کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

کام جس مہربان سے نکلا

کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید

آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا

پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر

دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں

پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم

ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے

کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ

ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا

تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے

مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو

زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ

جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے