آغا شاعر قزلباش کے اشعار
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
کوئی دیکھے اس وقت چہرا تمہارا
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ
اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا
اک بات کہیں تم سے خفا تو نہیں ہو گے
پہلو میں ہمارے دل مضطر نہیں ملتا
ہمیں ہیں موجب باب فصاحت حضرت شاعرؔ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
اس لئے کہتے تھے دیکھا منہ لگانے کا مزہ
آئینہ اب آپ کا مد مقابل ہو گیا
کلیجے میں ہزاروں داغ دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی
لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے