علی اکبر ناطق کے افسانے
شاہ محمد کا ٹانگہ
میں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، تانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا ایک سوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈ مُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دعا کے لیے رُکے لیکن میری
سفید موتی
وہ ہم سے پانچ گھر چھوڑ کے رہتا تھا لیکن یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔ میں تو اسے سکول میں دیکھتا ہے۔ اس دن بالکل یہی موسم تھا، اکتوبر کے آغاز کا۔ تب دھوپ میں گرمی نہیں تھی۔ وہ کھلے گراونڈ میں کرسی پر بیٹھا، اتنا پُرسکون تھا، جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو
تمغہ
ڈی آئی جی سمیت پولیس کے تمام افسران موجود تھے۔ سرخ قالینوں اور کرسیوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ اسٹیج کو پولیس کے شہد ا کی تصویروں اور پھولوں سے سجا دیا گیا تھا۔ اناؤنسر نے مختصر تمہید کے بعد ڈی آئی جی شمس الحسن کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ ڈی آئی