Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Faragh's Photo'

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

اظہر فراغ کے اشعار

7.5K
Favorite

باعتبار

جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی

دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں

بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول

یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے

خطوں کو کھولتی دیمک کا شکریہ ورنہ

تڑپ رہی تھی لفافوں میں بے زبانی پڑی

یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی

لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے

پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں

بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا

ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا

اس سے ہم پوچھ تھوڑی سکتے ہیں

اس کی مرضی جہاں رکھے جس کو

میری نمو ہے تیرے تغافل سے وابستہ

کم بارش بھی مجھ کو کافی ہو سکتی ہے

اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے

اور کسی پر ہنستے ہنستے خود پر رونا آ جاتا ہے

ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا

گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام

اسے کہو جو بلاتا ہے گہرے پانی میں

کنارے سے بندھی کشتی کا مسئلہ سمجھے

مل گیا تو مجھے میرا نہیں رہنے دے گا

وہ سمندر مجھے قطرہ نہیں رہنے دے گا

ہمارے ظاہری احوال پر نہ جا ہم لوگ

قیام اپنے خد و خال میں نہیں کرتے

ایسی غربت کو خدا غارت کرے

پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو

آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں

ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں

وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا

ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں

کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے

کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تمہیں

جو میرے مشورے بیکار جانے لگ گئے ہیں

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت

جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے

کچھ نہیں دے رہا سجھائی ہمیں

اس قدر روشنی کا کیا کیجے

تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا

یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے

تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے

پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے

ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر

تولیا کھردرا لگے جس کو

یہ خموشی مری خموشی ہے

اس کا مطلب مکالمہ لیا جائے

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا

یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل نہیں

ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر

دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا

بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے

وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے

ہماری معذرت اے غم کہ مسکرا رہے ہیں

ہم اپنا ہاتھ تری پشت سے ہٹا رہے ہیں

محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو

یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا

ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں

ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں

خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو

جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا

ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن

شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے

وصل کے ایک ہی جھونکے میں

کان سے بالے اتر گئے

یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ

صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ویسے تو ایمان ہے میرا ان بانہوں کی گنجائش پر

دیکھنا یہ ہے اس کشتی میں کتنا دریا آ جاتا ہے

ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں

اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے

نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر

ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم

گیلے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے

اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے

میرا عشق تو خیر مری محرومی کا پروردہ تھا

کیا معلوم تھا وہ بھی دے گا میرا اتنا ٹوٹ کے ساتھ

یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے

سمے کو ریل کی پٹری کے ساتھ چلنے دیا

گرتے پیڑوں کی زد میں ہیں ہم لوگ

کیا خبر راستہ کھلے کب تک

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے

ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے

کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

منظر شام غریباں ہے دم رخصت خواب

تعزیے کی طرح اٹھا ہے کوئی بستر سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے