Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Goya Faqir Mohammad's Photo'

گویا فقیر محمد

1784 - 1850 | لکھنؤ, انڈیا

ناسخ کے شاگرد،مراٹھا حکمراں یشونت رائو ہولکر اور اودھ کے نواب غازی الدین حیدرکی فوج کے سپاہی

ناسخ کے شاگرد،مراٹھا حکمراں یشونت رائو ہولکر اور اودھ کے نواب غازی الدین حیدرکی فوج کے سپاہی

گویا فقیر محمد کے اشعار

999
Favorite

باعتبار

بجلی چمکی تو ابر رویا

یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا

دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں

نہ ہوگا کوئی مجھ سا محو تصور

جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تو ہے

اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی

آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی

نہیں بچتا ہے بیمار محبت

سنا ہے ہم نے گویاؔ کی زبانی

نقش پا پنج شاخہ قبر پر روشن کرو

مر گیا ہوں میں تمہاری گرمیٔ رفتار پر

سارے قرآن سے اس پری رو کو

یاد اک لفظ لن ترانی ہے

نہ مر کے بھی تری صورت کو دیکھنے دوں گا

پڑوں گا غیر کی آنکھوں میں وہ غبار ہوں میں

ناصحا عاشقی میں رکھ معذور

کیا کروں عالم جوانی ہے

وہ طفل نصیری آئے شاید

قسمیں دوں مرتضیٰ علی کی

زاہدو قدرت خدا دیکھو

بت کو بھی دعوی خدائی ہے

ہر گام پہ ہی سائے سے اک مصرع موزوں

گر چند قدم چلیے تو کیا خوب غزل ہو

خار چبھ کر جو ٹوٹتا ہے کبھی

آبلہ پھوٹ پھوٹ روتا ہے

ضعف سے رہتا ہے اب پاؤں پہ سر

آپ اپنی ٹھوکریں کھاتے ہیں ہم

جامۂ سرخ ترا دیکھ کے گل

پیرہن اپنا قبا کرتے ہیں

خون مرا کر کے لگانا نہ حنا میرے بعد

دست رنگیں نہ ہوں انگشت نما میرے بعد

آسماں کہتے ہیں جس کو وہ زمین شعر ہے

ماہ نو مصرع ہے وصف ابروئے خم دار میں

گیا ہے کوچۂ کاکل میں اب دل

مسلماں وارد ہندوستاں ہے

دماغ اور ہی پاتی ہیں ان حسینوں میں

یہ ماہ وہ ہیں نظر آئیں جو مہینوں میں

ٹھکرا کے چلے جبیں کو میری

قسمت کی لکھی نے یاوری کی

سخت ہے حیرت ہمیں جو زیر ابرو خال ہے

ہم تو سنتے تھے کہ کعبہ میں کوئی ہندو نہیں

گر ہمارے قتل کے مضموں کا وہ نامہ لکھے

بیضۂ فولاد سے نکلیں کبوتر سیکڑوں

در پہ نالاں جو ہوں تو کہتا ہے

پوچھو کیا چیز بیچتا ہے یہ

مثل طفلاں وحشیوں سے ضد ہے چرخ پیر کو

گر طلب منہ کی کریں برسائے پتھر سیکڑوں

جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے

یہ کہیے لن ترانی اب کہاں ہے

Recitation

بولیے