aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حنیف اخگر کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم

حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور

کسی کے جور مسلسل کا فیض ہے اخگرؔ

وگرنہ درد ہمارے سخن میں کتنا تھا

جو کشود کار طلسم ہے وہ فقط ہمارا ہی اسم ہے

وہ گرہ کسی سے کھلے گی کیا جو تری جبیں کی شکن میں ہے

بے شک اسیر گیسوئے جاناں ہیں بے شمار

ہے کوئی عشق میں بھی گرفتار دیکھنا

عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا

آگ میں جیسے سمندر دیکھا

کافر سہی ہزار مگر اس کو کیا کہیں

ہم پر وہ مہرباں ہے مسلمان کی طرح

آئنے میں ہے فقط آپ کا عکس

آئنہ آپ کی صورت تو نہیں

شامل ہوئے ہیں بزم میں مثل چراغ ہم

اب صبح تک جلیں گے لگاتار دیکھنا

وہ کم سنی میں بھی اخگرؔ حسین تھا لیکن

اب اس کے حسن کا عالم عجیب عالم ہے

جو ہے تازگی مری ذات میں وہی ذکر و فکر چمن میں ہے

کہ وجود میرا کہیں بھی ہو مری روح میرے وطن میں ہے

لوگ ملنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے

شہر کا ایک تعلق تو ہے ویرانے سے

دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی

سچائیوں کی آخری پہچان کی طرح

کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے

مرتب اس طرح آئین مے خانہ نہیں ہوتا

دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں کار جنوں

اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے

جب بھی اس زلف پریشاں کی ہوا آتی ہے

ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں

تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مروت ہے ہم نے مانا

مگر نہ اتنی تسلیاں دو کہ دم نکل جائے آدمی کا

جو مسافر بھی ترے کوچے سے گزرا ہوگا

اپنی نظروں کو بھی دیوار سمجھتا ہوگا

نگاہیں پھیرنے والے یہ نظریں اٹھ ہی جاتی ہیں

کبھی بیگانگی وجہ شناسائی بھی ہوتی ہے

حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی

حسین انداز دل نوازی حسین تر ناز برہمی کا

عجب ہے عالم عجب ہے منظر کہ سکتہ میں ہے یہ چشم حیرت

نقاب الٹ کر وہ آ گئے ہیں تو آئنے گنگنا رہے ہیں

یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوان رنگ و بو میں

ہیں جمع سب مہر و ماہ و انجم پتا نہیں پھر بھی روشنی کا

پوچھتی رہتی ہے جو قیصر و کسریٰ کا مزاج

شان یہ خاک نشینوں میں کہاں سے آئی

آنکھوں میں جل رہے تھے دیئے اعتبار کے

احساس ظلمت شب ہجراں نہیں رہا

فقدان عروج رسن و دار نہیں ہے

منصور بہت ہیں لب اظہار نہیں ہے

بزم کو رنگ سخن میں نے دیا ہے اخگرؔ

لوگ چپ چپ تھے مری طرز نوا سے پہلے

کشتۂ ضبط فغاں نغمۂ بے ساز و صدا

اف وہ آنسو جو لہو بن کے ٹپکتا ہوگا

یاد فروغ دست حنائی نہ پوچھیے

ہر زخم دل کو رشک نمک داں بنا دیا

ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار

کچھ ٹھکانہ ہے بھلا اس جذبۂ تعمیر کا

خلوت جاں میں ترا درد بسانا چاہے

دل سمندر میں بھی دیوار اٹھانا چاہے

پل بھر نہ بجلیوں کے مقابل ٹھہر سکے

اتنا بھی کم سواد مرا آشیاں کہاں

ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوق اسیری

ہر پاؤں میں زنجیر ہے میں دیکھ رہا ہوں

شدید تند ہوائیں ہیں کیا کیا جائے

سکوت غم کی صدائیں ہیں کیا کیا جائے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے