حنیف اخگر کے اشعار
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
جو کشود کار طلسم ہے وہ فقط ہمارا ہی اسم ہے
وہ گرہ کسی سے کھلے گی کیا جو تری جبیں کی شکن میں ہے
جو ہے تازگی مری ذات میں وہی ذکر و فکر چمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو مری روح میرے وطن میں ہے
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مرتب اس طرح آئین مے خانہ نہیں ہوتا
تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مروت ہے ہم نے مانا
مگر نہ اتنی تسلیاں دو کہ دم نکل جائے آدمی کا
حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی
حسین انداز دل نوازی حسین تر ناز برہمی کا
نگاہیں پھیرنے والے یہ نظریں اٹھ ہی جاتی ہیں
کبھی بیگانگی وجہ شناسائی بھی ہوتی ہے
عجب ہے عالم عجب ہے منظر کہ سکتہ میں ہے یہ چشم حیرت
نقاب الٹ کر وہ آ گئے ہیں تو آئنے گنگنا رہے ہیں
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوان رنگ و بو میں
ہیں جمع سب مہر و ماہ و انجم پتا نہیں پھر بھی روشنی کا