حنیف اخگر کے اشعار
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
جو کشود کار طلسم ہے وہ فقط ہمارا ہی اسم ہے
وہ گرہ کسی سے کھلے گی کیا جو تری جبیں کی شکن میں ہے
کسی کے جور مسلسل کا فیض ہے اخگرؔ
وگرنہ درد ہمارے سخن میں کتنا تھا
بے شک اسیر گیسوئے جاناں ہیں بے شمار
ہے کوئی عشق میں بھی گرفتار دیکھنا
کافر سہی ہزار مگر اس کو کیا کہیں
ہم پر وہ مہرباں ہے مسلمان کی طرح
شامل ہوئے ہیں بزم میں مثل چراغ ہم
اب صبح تک جلیں گے لگاتار دیکھنا
عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
آگ میں جیسے سمندر دیکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر طرف ہیں خانہ بربادی کے منظر بے شمار
کچھ ٹھکانہ ہے بھلا اس جذبۂ تعمیر کا
جو ہے تازگی مری ذات میں وہی ذکر و فکر چمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو مری روح میرے وطن میں ہے
وہ کم سنی میں بھی اخگرؔ حسین تھا لیکن
اب اس کے حسن کا عالم عجیب عالم ہے
پوچھتی رہتی ہے جو قیصر و کسریٰ کا مزاج
شان یہ خاک نشینوں میں کہاں سے آئی
عجب ہے عالم عجب ہے منظر کہ سکتہ میں ہے یہ چشم حیرت
نقاب الٹ کر وہ آ گئے ہیں تو آئنے گنگنا رہے ہیں
لوگ ملنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے
شہر کا ایک تعلق تو ہے ویرانے سے
نگاہیں پھیرنے والے یہ نظریں اٹھ ہی جاتی ہیں
کبھی بیگانگی وجہ شناسائی بھی ہوتی ہے
حسین صورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی
حسین انداز دل نوازی حسین تر ناز برہمی کا
دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں کار جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچائیوں کی آخری پہچان کی طرح
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مرتب اس طرح آئین مے خانہ نہیں ہوتا
تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مروت ہے ہم نے مانا
مگر نہ اتنی تسلیاں دو کہ دم نکل جائے آدمی کا
جب بھی اس زلف پریشاں کی ہوا آتی ہے
ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
فقدان عروج رسن و دار نہیں ہے
منصور بہت ہیں لب اظہار نہیں ہے
جو مسافر بھی ترے کوچے سے گزرا ہوگا
اپنی نظروں کو بھی دیوار سمجھتا ہوگا
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوان رنگ و بو میں
ہیں جمع سب مہر و ماہ و انجم پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
بزم کو رنگ سخن میں نے دیا ہے اخگرؔ
لوگ چپ چپ تھے مری طرز نوا سے پہلے
آنکھوں میں جل رہے تھے دیئے اعتبار کے
احساس ظلمت شب ہجراں نہیں رہا
کشتۂ ضبط فغاں نغمۂ بے ساز و صدا
اف وہ آنسو جو لہو بن کے ٹپکتا ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوق اسیری
ہر پاؤں میں زنجیر ہے میں دیکھ رہا ہوں
یاد فروغ دست حنائی نہ پوچھیے
ہر زخم دل کو رشک نمک داں بنا دیا
خلوت جاں میں ترا درد بسانا چاہے
دل سمندر میں بھی دیوار اٹھانا چاہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پل بھر نہ بجلیوں کے مقابل ٹھہر سکے
اتنا بھی کم سواد مرا آشیاں کہاں