aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hatim Ali Mehr's Photo'

حاتم علی مہر

1815 - 1879

مرزا غالب کے ہمعصر اور دوست،ہائی کورٹ کے وکیل اور آنریری مجسٹریٹ

مرزا غالب کے ہمعصر اور دوست،ہائی کورٹ کے وکیل اور آنریری مجسٹریٹ

حاتم علی مہر کے اشعار

2.6K
Favorite

باعتبار

ساری عزت نوکری سے اس زمانے میں ہے مہرؔ

جب ہوئے بے کار بس توقیر آدھی رہ گئی

ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید

اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا

اپنا باطن خوب ہے ظاہر سے بھی اے جان جاں

آنکھ کے لڑنے سے پہلے جی لڑا بیٹھے ہیں ہم

ہم بھی باتیں بنایا کرتے ہیں

شعر کہنا مگر نہیں آتا

داغوں کی بس دکھا دی دوالی میں روشنی

ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ

دونوں رخسار عنایت کریں اک اک بوسہ

عاشقوں کے لیے سرکار سے چندا ہو جائے

مار ڈالا تری آنکھوں نے ہمیں

شیر کا کام ہرن کرتے ہیں

میں جیتا ہوں دیکھے سے صورت تمہاری

مجھے ہے نہایت ضرورت تمہاری

میں نے مانا آپ نے بوسے دئے میں نے لئے

وہ کہاں نکلی جو ہے میری تمنا ایک اور

پاؤں پوجوں میں اپنے ہاتھوں کے

ان کی انگیا کے بند کھولے ہیں

کوئی ہوگا نہ خریدار ہمارے دل کا

تم تو بازار میں ہڑتال کئے جاتے ہو

کسی کا رخ ہمیں قرآن کا جواب ملا

خدا کا شکر ہے بت صاحب کتاب ملا

نماز صبح وہ ہی پڑھ رہے تھے کعبہ میں

جناب مہرؔ جو مندر میں تھے پجاری رات

ابر آئے تو شراب پئیں بادہ خوار ہیں

امیدوار رحمت پروردگار ہیں

یاد رکھنے کی یہ باتیں ہیں بجا ہے سچ ہے

آپ بھولے نہ ہمیں آپ کو ہم بھول گئے

زاہد حرم میں بیٹھ کے خالی میں کیا کروں

کوسوں یہاں شراب کہیں بوند بھر نہیں

آپ ہی پر نہیں دیوانہ پن اپنا موقوف

اور بھی چند پری زاد ہیں اچھے اچھے

مے کدہ چھوڑ کے کیوں دیر و حرم میں جائیں

اس میں ہندو رہیں اس میں ہوں مسلماں آباد

راتوں کو بت بغل میں ہیں قرآں تمام دن

ہندو تمام شب ہوں مسلماں تمام دن

چھو جائے جو بندے کے سوا جسم سے تیرے

اللہ کرے ہاتھ وہ گل جائے تو اچھا

مری تو خاک بھی تیرے قدم نہ چھوڑے گی

ذرا تو آنے تو دے اپنے پائمال کا وقت

کعبہ میں ہم کو دیر کا ہر دم خیال تھا

اللہ جانتا ہے بتوں کا رہا لحاظ

یاد میں اک شوخ پنجابی کے روتے ہیں جو ہم

آج کل پنجاب میں بہتا ہے دریا ایک اور

پستاں ہیں حباب اور شکم بحر لطافت

موجیں ہیں بٹیں پیٹ کی دریا کا بھنور ناف

رات دن سجدے کیا کرتا ہے حوروں کے لئے

کوئی زاہد کی نمازوں میں تو نیت دیکھتا

وحدہ لا شریک کی ہے قسم

اے صنم تم بتوں میں یکتا ہو

بوسے لیتے ہیں چشم جاناں کے

ہم ہرن کا شکار کرتے ہیں

آگرہ چھوٹ گیا مہرؔ تو چنار میں بھی

ڈھونڈھا کرتی ہیں وہی کوچہ و بازار آنکھیں

تری تلاش سے باقی کوئی مکاں نہ رہا

حرم میں دیر میں بندہ کہاں کہاں نہ رہا

کس پر نہیں رہی ہے عنایت حضور کی

صاحب نہیں مجھی پہ تمہارا کرم فقط

شیخ کعبہ میں یہ دعا مانگو

مہرؔ ہو بت کدہ ہو دنیا ہو

دیوانہ ہوں پر کام میں ہوشیار ہوں اپنے

یوسف کا خیال آیا جو زنداں نظر آیا

ہے یہ پورب کی زبان دانی مہرؔ

کہتے ہیں بات کو ہم سنتا ہوں

یوں اگر جھگڑا محبت کا چکے تو خوب ہے

ہم زیادہ چاہیں وہ اے مہرؔ کم چاہا کریں

نہ ذقن ہے وہ نہ لب ہیں نہ وہ پستاں نہ وہ قد

سیب و عناب و انار ایک شجر سے نکلے

در بہ در مارا پھرا میں جستجوئے یار میں

زاہد کعبہ ہوا رہبان بت خانہ ہوا

بندھ گئی باغ میں تیری تو ہوا باد صبا

ان کے کوچہ میں مری آہ کی بندھ جائے ہوا

جنت کی نعمتوں کا مزا واعظوں کو ہو

ہم تو ہیں محو لذت بوس و کنار میں

کیا بتوں میں ہے خدا جانے بقول استاد

نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہن رکھتے ہیں

گل بانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا

اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

اے بتوں اللہ سے لی ہے اجازت وصل کی

کل ہزاروں دیکھ ڈالے استخارے رات کو

ہم مہرؔ محبت سے بہت تنگ ہیں اب تو

روکیں گے طبیعت کو جو رک جائے تو اچھا

آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام

چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا

مجمع میں رقیبوں کے کھلا تھا ترا جوڑا

کل رات عجب خواب پریشاں نظر آیا

کرتے ہیں شوق دید میں باتیں ہوا سے ہم

جاتے ہیں کوئے یار میں پہلے صبا سے ہم

کیا تفرقہ ہوا جو ہوئے یار سے الگ

دل ہم سے اور ہم ہیں دل زار سے الگ

بے قراری روز و شب کرنے لگا

مہرؔ اب تو دل غضب کرنے لگا

نہ لے جا دیر سے کعبہ ہمیں زاہد کہ ہم واں بھی

خدا کو بھول جاتے ہیں بتوں کو یاد کرتے ہیں

صبا جو بڑی باغ والی ہوئی ہے

تمہاری گلی کی نکالی ہوئی ہے

تو نے وحدت کو کر دیا کثرت

کبھی تنہا نظر نہیں آتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے