جنید حزیں لاری کے اشعار
غم دے گیا نشاط شناسائی لے گیا
وہ اپنے ساتھ اپنی مسیحائی لے گیا
غیروں کی شکستہ حالت پر ہنسنا تو ہمارا شیوہ تھا
لیکن ہوئے ہم آزردہ بہت جب اپنے گھر کی بات چلی
اداسیاں ہیں جو دن میں تو شب میں تنہائی
بسا کے دیکھ لیا شہر آرزو میں نے
دیکھا نہیں وہ چاند سا چہرا کئی دن سے
تاریک نظر آتی ہے دنیا کئی دن سے
وہ سادگی میں بھی ہے عجب دل کشی لئے
اس واسطے ہم اس کی تمنا میں جی لئے
تری تلاش میں نکلے تو اتنی دور گئے
کہ ہم سے طے نہ ہوئے فاصلے جدائی کے
کبھی اس راہ سے گزرے وہ شاید
گلی کے موڑ پر تنہا کھڑا ہوں
کلیوں میں تازگی ہے نہ پھولوں میں باس ہے
تیرے بغیر سارا گلستاں اداس ہے
اسی کو دشت خزاں نے کیا بہت پامال
جو پھول سب سے حسیں موسم بہار میں تھا
عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا
رکی رکی سی ہے برسات خشک ہے ساون
یہ اور بات کہ موسم یہی نمو کا ہے
اک شمع آرزو کی حقیقت ہی کیا مگر
طوفاں میں ہم چراغ جلائے ہوئے تو ہیں
عشق ہے جی کا زیاں عشق میں رکھا کیا ہے
دل برباد بتا تیری تمنا کیا ہے
قطرہ نہ ہو تو بحر نہ آئے وجود میں
پانی کی ایک بوند سمندر سے کم نہیں
دور ساحل سے کوئی شوخ اشارا بھی نہیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی نہیں