Kishwar Naheed's Photo'

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

کشور ناہید کے اشعار

2.1K
Favorite

باعتبار

کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا

بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو

ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں

دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ

مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں

جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں

وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی

اپنی بے چہرگی چھپانے کو

آئینے کو ادھر ادھر رکھا

ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں

کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے

کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی

کس طرف کون سی منزلوں میں گئی

تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں

ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی

کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا

شامل ہوں میں تیرے رتجگوں میں

جاگوں بھی تو تیرے خواب سوچوں

پانی کا بہاؤ تھم گیا ہے

نکلی ہے ندی سے وہ نہا کر

یہ زندگی جسے ڈھونڈا تھا آسمانوں میں

ہوا کے ہاتھ پہ لکھی ہوئی عبارت تھی

اپنا نام بھی اب تو بھول گئی ناہیدؔ

کوئی پکارے تو حیرت سے تکتی ہوں

لرز رہی ہے زمیں سہمی لڑکیوں کی طرح

پکارتی ہے کہ تنہا نہ چھوڑ کر جانا

دل کو ترے فراق کی آرزو یاد رہ گئی

دن وہ محبتوں کے بھی مثل رہ سفر گئے

اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں

پھر خلش کیا ہے کہ رہ رہ کے وفا ڈھونڈھتی ہے

وہ جب بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا

وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا

ایک موہوم سا رشتہ ہے سو رکھنا اس کو

تم جہاں جاؤ سمجھ لینا وہیں ہم بھی تھے

مان بھی لوں کہ تری یاد محض واہمہ ہے

پھر بھی وہ یاد ہی دم ساز رہی شام و سحر

اداسیوں کو تو آنگن ہی چاہئیں خالی

چھتوں پہ چاندنی راتوں کا سلسلہ رکھنا

اب صرف لباس رہ گیا ہے

وہ لے گیا کل بدن چرا کر

وہ جس کا شوق ہے کھلتے گلاب مل دینا

گلے ملو تو اسے بھی اداس کر جانا

اسے ہی بات سنانے کو دل نہیں کرتا

وہ شخص جس کے لیے زندگی سماعت تھی

مانگ میں ٹانکنے آیا تھا ستارے کوئی

دل کو کیا سوجھی کہ اس خواب کو بیمار کیا

مردوں کو سب روا پہ ہے عورت کو ناروا

شرم و حیا کا شہر میں چرچا بھی ہے عجب

بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں

انکار بھی عجب ہے بلاوا بھی ہے عجب

شاید اداس شاخوں سے لپٹا ہوا ملے

اپنی گلی میں اس کا ٹھکانہ بھی ہے عجب

اب تو بدن کے جلنے کی بو شہر بھر میں ہے

کہنا بھی ناروا ہے سو کہتا نہیں کوئی

ہاں انہی گزرے زمانوں کے صدا ساز ہیں ہم

جن کے شعلوں پہ ہوا ناچتی دیکھی ہم نے

Recitation

aah ko chahiye ek umr asar hote tak SHAMSUR RAHMAN FARUQI

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے