منظور ہاشمی کے اشعار
قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
مرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سنا ہے سچی ہو نیت تو راہ کھلتی ہے
چلو سفر نہ کریں کم سے کم ارادہ کریں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا
کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے
درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں
میں اس کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہوں
کہ ایک روز اسے روبرو تو ہونا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
پانی میں ذرا دیر کو ہلچل تو ہوئی تھی
پھر یوں تھا کہ جیسے کوئی ڈوبا ہی نہیں تھا
ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف
مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
نئی فضا کے پرندے ہیں کتنے متوالے
کہ بال و پر سے بھی پہلے اڑان مانگتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے
اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
امید و یاس کی رت آتی جاتی رہتی ہے
مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جو اپنی نیند کی پونجی بھی کب کی کھو چکی ہیں
انہیں آنکھوں میں ہم اک خواب رکھنا چاہتے ہیں
ہمارے لفظ آئندہ زمانوں سے عبارت ہیں
پڑھا جائے گا کل جو آج وہ تحریر کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے