محمد مجیب کے مضامین
غالب کا اردو کلام
مرزا غالب نے لکھا ہے کہ انہیں شعروشاعری کا شوق اسی زمانہ سے ہوا جب سے کہ وہ ’’لہوولعب‘‘ اور ’’فسق وفجور‘‘ میں پڑ گئے، گویا یہ شوق ان کی شخصیت کے فروغ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھی۔ ا ن کے ابتدائی کلام کے نمونے ہمارے سامنے ہوتے اور انہیں وقت تصنیف
دنیا کی پہلی تہذیبیں
دنیا کی کہانی میں حضرت آدم ؑ کا زمانہ وہ وقت ہے جب آدمی جانور سے انسان ہوا۔ سائنس کے پجاری حضرت آدم ؑ کو نہیں مانتے۔ لیکن یہی لوگ جب پرانی قوموں کے عقیدوں اور دھرم کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے بزرگ کا نام ملتا ہے جنہوں
امراؤ جان ادا
پچیس برس پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ادبی رسالے میں مرزا رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ پرایک تبصرہ پڑھا۔ اسے پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ یہ ناول ایک طوائف کی داستان حیات ہے۔ مجھے جس پر حیر ت ہوئی وہ تھی تبصرہ نگار کی بے پناہ تعریف۔ (اورتبصرہ نگار بھی) ایک
تہذیب کیا ہے؟
سیاسی تاریخ کا موضوع قوموں کی تنظیم، حکومتوں کی کارگزاری اور خارجی سیاست کی کاروائیاں ہیں۔ اسے شخصیتیں اور کارنامے، ترقی اور کامیابی یا زوال اور تباہی کی مثالیں بہت مؤثر اور سبق آموز بنا دیتی ہیں۔ لیکن تاریخ کی ساری حقیقت اس میں بیان نہیں ہو جاتی
سیکولرازم اور تصوف
فکرونظر کی دنیا میں آج کل جو مسلمہ فیشن ہیں ان میں سے ایک سیکولرازم بھی ہے۔ بہت کم لوگ صحیح صحیح جانتے ہیں کہ سیکولرازم ہے کیا، سوائے اس کے کہ یہ کوئی مذہب نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیکولرازم کا دم تو بھرتے ہیں کیونکہ اسے ایسی بات سمجھا
گرونانک
بزرگوں کے ذکر میں شریک ہونا بڑی خوش قسمتی، بڑی سعادت ہے اور میں اس جلسے کے منتظموں کا بہت شکر گزار ہوں کہ ان کی بدولت مجھے اس کا ایک اور موقع ملا۔ مجھے سب سے پہلے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے گرونانک کے بارے میں پڑھنے کی ہدایت کی اور پھر میں گروجی کی پانچ
ادب اور ادیب کا مقصد
ہمارے زمانے کے عجائبات میں سے ایک بہت ہی عجیب چیز ہے یہ مقصد کی بحث۔ جس وقت سے ہمیں کچھ شعور ہوتا ہے ہم ہر چیز کا، ہر کام کا، ہر خیال کا مقصد پوچھنے لگتے ہیں۔ جب تک ہم میں غور کرنے کی صلاحیت رہتی ہے ہم مقصد کی جستجو میں رہتے ہیں اور جب خود مایوس ہو جاتے
تہذیب
وہ لوگ جن کے پاس اور سب چیزیں ہوتی ہیں، یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں تہذیب بھی ہے اور وہ لوگ جن کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا بس اس بات پر فخر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس تو تہذیب ہے۔ وہ فنکار جس کا موضوع گفتگو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رہتا ہے، وہ ادیب جو
غالب کا زمانہ
مرزااسداللہ خاں غالب ۲۷ دسمبر ۱۷۹۷کوپیداہوئے۔ ستمبر۱۷۹۶ءمیں ایک فرانسیسی، پروں، جواپنی قسمت آزمانے ہندوستان آیاتھا، دولت راؤسندھیا کی ’شاہی فوج‘ کا سپہ سالار بنادیاگیا۔ اس حیثیت سے وہ ہندوستان کا گورنربھی تھا۔ اس نے دہلی کا محاصرہ کرکے اسے فتح کرلیا
تصوف ہندوستان میں
جب ایسے لوگوں کی بات کی جائے جن کی بقا اور اثر کا دارومدار اس بات پر ہو کہ انہوں نے حق کی تلاش کو روح کی ایک سنجیدہ اور پرجوش مہم بنا لیا تھا تو ضروری ہوتا ہے کہ ان ہی کے لب ولہجے میں بات کی جائے، وہ لب ولہجہ جس سے عقل سلیم یا کامن سینس کو ٹھیس لگتی
امیر خسرو
مؤرخین امیر خسرو کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، مجھے تو وہ غیرمتعلق ہی سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ ۱۲۵۳ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ مؤرخین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے ترک خاندان سے تھے جسے منگولوں
ترجمان کا منصب
’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ معلوم نہیں شیخ فرید الدینؒ نے کس موقع پر کن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا لیکن اس کا اشارہ قدروں کی ترجمانی اور منتقلی کی طرف تھا اور اس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے اور اس وقت
فارسی عربی رسم الخط
(اب جبکہ اردو میں کمپیوٹر چھپائی عام ہوتی جا رہی ہے اس مضمون کی حیثیت تاریخی اور معلوماتی ہے۔) (م۔ ذ) ’’میراقلم معجزے دکھاتا ہے، میرے لفظ کی ’شکل‘ کو اپنے پر فخر ہے کہ وہ ’معنی‘ سے برتر ہے۔ میرے حروف کی ہر گولائی کی خوبی کا گنبد آسماں بھی معترف
مشرق و مغرب
شروع کے تین چار ہزار برس میں آدمی نے جو تہذیبی دولت کمائی، اپنے آپ کو جس طرح سدھارا اوراپنی زندگی کو سنوارا، وہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کے بعد کی جو تاریخ ہے، اس میں یہی سرمایہ دوبارہ کاروبار میں لگایا گیا، کچھ نیا مال لین دین میں آیا، کچھ نئی منڈیاں