Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مبارک شمیم کے اشعار

باعتبار

کیا خبر کب قید بام و در سے اکتا جائے دل

بستیوں کے درمیاں صحرا بھی ہونا چاہیئے

اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار

میری ہستی کا ورق یوں ہی کھلا رہنے دے

جو سایہ دار شجر تھے وہ صرف دار ہوئے

دکھائی دیتے نہیں دور دور تک سائے

مدت گزری ڈوب چکا ہوں درد کی پیاسی لہروں میں

زندہ ہوں یہ کوئی نہ جانے سانس کے آنے جانے سے

بول کس موڑ پہ ہوں کشمکش مرگ و حیات

ایسے عالم میں کہاں چھوڑ دیا ہے مجھ کو

کیا تماشہ ہے کہ اب ہر شخص کو یہ وہم ہے

سب سے میں اونچا ہوں مجھ سے کوئی بھی اونچا نہیں

ہر اک پتھر کو ہیرا کیوں سمجھ لیں

ہر اک پتھر اگرچہ دیدنی ہے

ہوا کیا اے نسیم صبح گاہی

جو مرجھایا ہوا دل کا کنول ہے

نظر آتی نہیں ہیں کم نظر کو

سرابوں کے جگر میں ندیاں ہیں

دیدۂ بے نور اک عالم ہے کیا یہ جھوٹ ہے

ہر طرف پھیلا ہوا ہے تیرگی کا سلسلہ

تمہاری یاد کے سائے بھی کچھ سمٹ سے گئے

غموں کی دھوپ تو باہر تھی عکس اندر تھا

جی یہی کہتا ہے اب چل کے وہیں جا ٹھہرو

ہم نے ویرانوں میں دیکھے ہیں وہ آثار کہ بس

Recitation

بولیے