سراج فیصل خان کے اشعار
ہمیں رنجش نہیں دریا سے کوئی
سلامت گر رہے صحرا ہمارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں
کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دشت جیسی اجاڑ ہیں آنکھیں
ان دریچوں سے خواب کیا جھانکیں
شاید اگلی اک کوشش تقدیر بدل دے
زہر تو جب جی چاہے کھایا جا سکتا ہے
کئی دن بعد اس نے گفتگو کی
کئی دن بعد پھر اچھا ہوا میں
وہ ایک شخص جو دکھنے میں ٹھیک ٹھاک سا تھا
بچھڑ رہا تھا تو لگنے لگا حسین بہت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چاند بیٹھا ہوا ہے پہلو میں
قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں میں
آج میری اک غزل نے اس کے ہونٹوں کو چھوا
آج پہلی بار اپنی شاعری اچھی لگی
وہ کبھی آغاز کر سکتے نہیں
خوف لگتا ہے جنہیں انجام سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں منتظر ہوں کسی ایسے وصل کا جس میں
مرے بدن پہ ترے جسم کا لباس رہے
میں اچھا ہوں تبھی اپنا رہی ہو
کوئی مجھ سے بھی اچھا مل گیا تو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم اس کو بلندی سے گرانے میں لگے ہو
تم اس کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے
میں تیرے ذکر کی وادی میں سیر کرتا رہوں
ہمیشہ لب پہ ترے نام کی مٹھاس رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بچھڑ جائیں گے ہم دونوں زمیں پر
یہ اس نے آسماں پر لکھ دیا ہے
کھلی آنکھوں سے بھی سویا ہوں اکثر
تمہارا راستہ تکتا ہوا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو جا رہا تھا بچھڑ کے تو ہر قدم پہ ترے
پھسل رہی تھی مرے پاؤں سے زمین بہت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تعلق توڑ کر اس کی گلی سے
کبھی میں جڑ نہ پایا زندگی سے
میں کہکشاؤں میں خوشیاں تلاشنے نکلا
مرے ستارہ میرا چاند سب اداس رہے
اس کے دل کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی
مجھ کو شہرت مل گئی الزام سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھلی جو آنکھ تو محشر کا شور برپا تھا
میں خوش ہوا کہ چلو آج مر گئی دنیا
اس کی یادوں کی کائی پر اب تو
زندگی بھر مجھے پھسلنا ہے
خیال کب سے چھپا کے یہ من میں رکھا ہے
مرا قرار تمہارے بدن میں رکھا ہے
لکھا ہے تاریخ کے صفحہ صفحہ پر یہ
شاہوں کو بھی داس بنایا جا سکتا ہے
تری حیات سے جڑ جاؤں واقعہ بن کر
تری کتاب میں میرا بھی اقتباس رہے
میں سنگ میل تھا تو یہ کرنا پڑا مجھے
تا عمر راستے میں ٹھہرنا پڑا مجھے
وصل میں سوکھ گئی ہے مری سوچوں کی زمیں
ہجر آئے تو مری سوچ کو شاداب کرے
مالک مجھے جہاں میں اتارا ہے کس لئے
آدم کی بھول میرا خسارہ ہے کس لئے
ہاتھ چھوٹا تو تیرگی میں تھا
ساتھ چھوٹا تو بجھ گئیں آنکھیں