ولی اللہ محب کے اشعار
برہمن دیر کو راہی ہوا اور شیخ کعبے کو
نکل کر اس دوراہے سے میں کوئے یار میں آیا
ہم دگر مومن کو ہے ہر بزم میں تکفیر جنگ
نیک صلح کل ہے بد ہے با جوان و پیر جنگ
شور رکھتے ہیں جہاں میں جس قدر سبزان ہند
بے نمک ہے ان کے آگے حسن اور اطراف کا
گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر
چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں
پھولوں کی سیج دوست کی خاطر محبؔ بچھاؤ
کانٹے رکھو ببول کے اعداؤں کے تلے
دونوں تیری جستجو میں پھرتے ہیں در در تباہ
دیر ہندو چھوڑ کر کعبہ مسلماں چھوڑ کر
جب نشے میں ہم نے کچھ میٹھے کی خواہش اس سے کی
ترش ہو بولا کہ کیوں بے تو بھی اس لائق ہوا
میں ہوں اور ساقی ہو اور ہوں راس و چپ یہ وہ بہم
جام دست چپ کے پاس اور شیشہ دست راس پاس
جو اپنے جیتے جی کو کنوئیں میں ڈبوئیے
تو چاہ میں کسی کی گرفتار ہوئیے
ساقی ہمیں قسم ہے تری چشم مست کی
تجھ بن جو خواب میں بھی پئیں مے حرام ہو
میکدے میں مست ہیں اور شور ان کا ہاؤ ہو
مدرسے میں شیخ ہیں اور وائے ویلا توبہ دہاڑ
تمام خلق خدا زیر آسماں کی سمیٹ
زمیں نے کھائی ولیکن بھرا نہ اس کا پیٹ
راگ اپنا گا ہمارا ذکر مت کر اے رقیب
جب ستاوے گا ہمیں تب لیں گے ہم اک دھول تھاپ
جو از خود رفتہ ہے گمراہ ہے وہ رہنما میرا
جو اک عالم سے ہے بیگانہ ہے وہ آشنا میرا
ہر گھڑی وہم میں گزرے ہیں نئے اخبارات
ترے کوچے میں گماں اپنا یہ جاسوس ہوا
دیں سے پیدا کفر ہے اور نور شکل نار ہے
رشتہ جب سبحے سے نکلا صورت زنار ہے
نکالوں دل سے میں نالے کی کس طرح آواز
تیری نگہ نے عجب سرمہ دان کھول دیئے
محبؔ تم بت پرستی کو نہ چھوڑو
تمہارا یاں ہویدا ہوئے گا رب
اے بندہ پرور اتنا لازم ہے کیا تکلف
اٹھئے غریب خانے چلئے بلا تکلف
جلتا ہے کہ خورشید کی اک روٹی ہو تیار
لے شام سے تا صبح تنور شب مہتاب
ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں
اس پری کا سحر یارو کچھ کہا جاتا نہیں
چراغ کعبہ و دیر ایک سا ہے چشم حق بیں میں
محبؔ جھگڑا ہے کوری کے سبب شیخ و برہمن کا
عشق جب دخل کرے ہے دل انساں میں محبؔ
واہمے سب بشریت کے کرے ہے اخراج
یہ داڑھی محتسب نے دخت رز کے پھاڑ کھانے کو
لیا ہے منہ پر اپنے ڈال برقع بے حیائی کا
کاش ہم ناکام بھی کام آئیں تیرے عشق میں
مطلقاً ناکارہ ہیں دنیا و دیں کے کام سے
سخن جن کے کہ صورت جوں گہر ہے بحر معنی میں
عبث غلطاں رکھے ہے فکر ان کے آب و دانے کا
بہ معنی کفر سے اسلام کب خالی ہے اے زاہد
نکل سبحے سے رشتہ صورت زنار ہو پیدا
دیوانگی کے سلسلہ کا ہوئے جو مرید
اس گیسوئے دراز سوا پیر ہی نہیں
ترے کلام نے کیسا اثر کیا واعظ
کہ دل زیادہ تر آوارہ ہو گیا واعظ
فصل خزاں میں باغ مذاہب کی کی جو سیر
ہے ہر طرف بہار گل جعفری سے آج
کعبہ و دیر میں جب وہ بت کافر نہ ملا
بخدا ہم نے بہت نالۂ ناقوس کئے
رات آخر ہے یہاں آیا نظر آثار صبح
شمع کی پھیکی ہے لو ہونٹوں کی ہے لالی ہے اداس
غور کر دیکھو تو یہ اک تار کا بستار ہے
رشتۂ تسبیح اور سر رشتۂ زنار بند
ان دو کے سوا کوئی فلک سے نہ ہوا پار
یا تیر مری آہ کا یا اس کی نظر کا
دلوں کا فرش ہے واں پاؤں رکھنے کی کہاں جاگہ
گزرتا ہے ترے کوچے سے پہلے ہی قدم سر سے
کافر ہوں گر میں نام بھی کعبے کا لوں کبھی
وہ سنگ دل صنم جو کبھو مجھ سے رام ہو
اے دل تجھے کرنی ہے اگر عشق سے بیعت
زنہار کبھو چھوڑیو مت سلسلۂ درد
نقاش ازل نے تو سر کاغذ باد آہ
کیا خاک لکھا عمر کی تعمیر کا نقشہ
رحیم و رام کی سمرن ہے شیخ و ہندو کو
دل اس کے نام کی رٹنا رٹے ہے کیا کیجے
دوستی چھوٹے چھڑائے سے کسو کے کس طرح
بند ہوتا ہی نہیں رستہ دلوں کی راہ کا
اس کے کوچے ہی میں آ نکلوں ہوں جاؤں جس طرف
میں تو دیوانہ ہوں اپنے اس دل گمراہ کا
نہ کیجے وہ کہ میاں جس سے دل کوئی ہو ملول
سوائے اس کے جو جی چاہے سو کیا کیجے
ارے او خانہ آباد اتنی خوں ریزی یہ قتالی
کہ اک عاشق نہیں کوچہ ترا ویران سونا ہے
جون سے رستے وہ ہو نکلے ادھر پہروں تلک
ہو ہجوم خلق سے کوچہ گلی بازار بند
اس خانماں خراب کو بھی دے میاں بتا
ہیں کون کون سے ترے رہنے کے گھر کے وقت
کعبہ جانے کی ہوس شیخ ہمیں بھی ہے ولے
کوچۂ یار قیامت ہے ہوا دار عزیز
رقیب جم کے یہ بیٹھا کہ ہم اٹھے ناچار
یہ پتھر اب نہ ہٹائے ہٹے ہے کیا کیجے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ جوں جوں وعدے کے دن رات پڑتے جاتے ہیں
گھڑی گھڑی میں مرا جی کٹے ہے کیا کیجے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ