Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wamiq Jaunpuri's Photo'

وامق جونپوری

1909 - 1998 | جون پور, انڈیا

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

وامق جونپوری کے اشعار

5.7K
Favorite

باعتبار

محبت کی سزا ترک محبت

محبت کا یہی انعام بھی ہے

اک حلقۂ احباب ہے تنہائی بھی اس کی

اک ہم ہیں کہ ہر بزم میں تنہا نظر آئے

تیری قسمت ہی میں زاہد مئے نہیں

شکر تو مجبوریوں کا نام ہے

اس دور کی تخلیق بھی کیا شیشہ گری ہے

ہر آئینے میں آدمی الٹا نظر آئے

سرکشی خودکشی پہ ختم ہوئی

ایک رسی تھی جل گئی شاید

پی لیا کرتے ہیں جینے کی تمنا میں کبھی

لڑکھڑانا بھی ضروری ہے سنبھلنے کے لیے

زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے

فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

میں تنگ ہوں سکون سے اب اضطراب دے

بے انتہا سکون بھی آزار ہی تو ہے

رات بھی مرجھا چلی چاند بھی کمھلا گیا

پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے

ہم نہ کہتے تھے شاعری ہے وبال

آج لو گھر گئے حسینوں میں

ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ

کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا

نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی

مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

تم ہوش میں جب آئے تو آفت ہی بن کے آئے

اب میرے پاس جب بھی تم آؤ نشے میں آؤ

رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا

ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا

نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی

کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے

جب پرانا لہجہ کھو دیتا ہے اپنی تازگی

اک نئی طرز نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم

وہ لمحہ بھر کی ملی خلد میں جو آزادی

تو قید ہو گئے مٹی میں ہم سدا کے لیے

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

یقیناً آ گیا ہے مے کدے میں تشنہ لب کوئی

کہ پیتا جا رہا ہوں کیفیت کم ہوتی جاتی ہے

وہ تو کہئے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے

ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات

اگر غبار ہو دل میں اگر ہو تنگ نظر

تو مہر و ماہ سے بھی تیرگی نہیں جاتی

پہچان لو اس کو وہی قاتل ہے ہمارا

جس ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار لگے ہے

بدلتی رہتی ہیں قدریں رحیل وقت کے ساتھ

زمانہ بدلے گا ہر شے کا نام بدلے گا

مجھے اس جنوں کی ہے جستجو جو چمن کو بخش دے رنگ و بو

جو نوید فصل بہار ہو مجھے اس نظر کی تلاش ہے

وہ جو تسبیح لیے ہے اس کو

میرے آگے سے اٹھا دے ساقی

وہ وعدے یاد نہیں تشنہ ہے مگر اب تک

وہ وعدے بھی کوئی وعدے جو مے پلا کے لیے

یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے

مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

کون سنتا ہے بھکاری کی صدائیں اس لیے

کچھ ظریفانہ لطیفے یاد کر لیتے ہیں ہم

کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوں برباد کیا

اپنے لہو کی بو آتی ہے ان اجڑے بازاروں سے

یہ زندگی کی رات ہے تاریک کس قدر

دونوں سروں پہ شمع جلاؤ نشے میں آؤ

لاکھ آباد تمنا ہو کے دل

پھر بھی ویراں ہے نہ جانے کس لیے

مرے فکر و فن کو نئی فضا نئے بال و پر کی تلاش ہے

جو قفس کو یاس کے پھونک دے مجھے اس شرر کی تلاش ہے

یہ ہم کو چھوڑ کے تنہا کہاں چلے وامقؔ

ابھی تو منزل معراج دار باقی ہے

دیکھیے کب راہ پر ٹھیک سے اٹھیں قدم

رات کی مے کا خمار دیکھیے کب تک رہے

اے کاش مرے گوش و نظر بھی رہیں ثابت

جب حسن سنا جائے یا نغمہ نظر آئے

ہم کو حاجت نہیں نقیبوں کی

شعر اپنا نقیب ہے خود ہی

ہے جس کی ٹھوکروں میں آب زندگی وامقؔ

وہ تشنگی کا سمندر دکھائی دیتا ہے

اسے ضد کہ وامقؔ شکوہ گر کسی راز سے نہ ہو با خبر

مجھے ناز ہے کہ یہ دیدہ ور مری عمر بھر کی تلاش ہے

ارے او ادیب فسردہ خو ارے او مغنی رنگ و بو

ابھی حاشیے پہ کھڑا ہے تو بہت آگے اہل ہنر گئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے