ذکی کاکوروی کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں

اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا

یاد آئے ہیں اف گنہ کیا کیا

ہاتھ اٹھائے ہیں جب دعا کے لئے

تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں

رات اور ایسی کالی رات

حسن جس حال میں نظر آیا

ہم نے اس حال میں پرستش کی

صاف کہئے کہ پیار کرتے ہیں

یہ نگاہوں کا قول مبہم کیا

کتنے ہی پھول چن لئے میں نے

کتنے ہی پھول رہ گئے باقی

عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا

دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا

جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح

گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں

لوگ کہتے رہے قریب ہے وہ

ہم نے ڈھونڈا تو دور دور نہ تھا

یاد اتنا ہے کہ میں ہوش گنوا بیٹھا تھا

چھٹ گیا ہاتھ سے کب جام مجھے یاد نہیں

وہ تری زلف کا سایہ ہو کہ آغوش ترا

مل گیا ہو کبھی آرام مجھے یاد نہیں

میں نے تنہائیوں کے لمحوں میں

تم کو اکثر قریب پایا ہے

تری جوان امنگوں کو ہو گیا ہے کیا

ڈری ڈری سی محبت مجھے پسند نہیں

منزل جسے سمجھتے تھے یاران قافلہ

پہنچے جو اس جگہ تو فقط سنگ میل تھا

یہ رات یونہی بسر ہو گئی تو کیا ہوگا

ترے بغیر سحر ہو گئی تو کیا ہوگا

دوسروں کو فریب دے دے کر

ہم نے خود بھی فریب کھایا ہے

شکوہ نہیں دنیا کے صنم ہائے گراں کا

افسوس کہ کچھ پھول تمہارے بھی ملے ہیں

کارواں تو نکل گیا کوسوں

راہ بھٹکے ہوئے کہاں جائیں

مجھ کو سکوں کی چین کی پژمردگی سے کیا

ہر روز ایک تازہ قیامت کی آرزو

بری تقدیر کے رونے سے حاصل

طلب ہو گر تو ویرانے بہت ہیں

رموز عشق کی گہرائیاں سلامت ہیں

ہمارے خواب پریشاں کسی کو کیا معلوم

درد دل نے لی نہ تھی کروٹ ابھی

ان کے ماتھے پہ پسینا آ گیا

مرنے کے بعد کوئی پشیماں ہوا تو کیا

ماتم کدہ جو گور غریباں ہوا تو کیا

وائے ناکامئ قسمت کہ بھنور سے بچ کر

لب ساحل پہ جو آئے تو کگارا ٹوٹا

الجھی تھیں جن نسیم سے کلیاں خبر نہ تھی

پہنچے گی بوئے ناز مرے پیرہن سے دور

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے