aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "'miir'-e-be-KHirad"
عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیںاس میرؔ بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغتھا میرؔ بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ
مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاکہے میرؔ بحر بے تہہ ہستی سراب سا
مجنون بے خرد نے دی جاں بہ ناامیدیلیلیٰ کا دیکھتے ہی محمل تڑپ تڑپ کر
بیگم اختر کی گائی ہوئیں ١٠ مشهور غزلیں
میر 18ویں صدی کے جدید شاعر ہیں ۔اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں بھی میر کی خدمات بیش بہا ہیں ۔خدائے سخن میر کے لقب سے معروف اس شاعر نے اپنے بارے میں کہا تھا میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ ریختہ ان کے 20 معروف و مقبول ،پسندیدہ اور مؤقراشعار کا مجموعہ پیش کر رہاہے ۔ ان اشعار کا انتخاب بہت سہل نہیں تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ اب بھی میر کے کئی مقبول اشعار اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کا خیر مقدم ہے ۔اگر ہماری مجلس مشاورت آپ کے پسندیدہ شعر کو اتفاق رائے سے پسند کرتی ہے تو ہم اس کو نئی فہرست میں شامل کریں گے ۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہوگی اور آپ اس فہرست کو سنوارنے اور آراستہ کرنے میں معاونت فرمائیں گے۔
وزیر علی صبا لکھنؤی تقریباً ۱۸۵۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد تھے۔ دو سو روپیہ واجد علی شاہ کی سرکار سے اور تیس روپیہ ماہوار نواب محسن الدولہ کے یہاں سے ملتا تھا۔ افیون کے بہت شوقین تھے۔ جو شخص ان سے ملنے جاتا اس کی تواضع منجملہ دیگر تکلفات افیون سے بھی ضرور کرتے۔ ۱۳؍جون ۱۸۵۵ء کو لکھنؤ میں گھوڑے سے گرکر انتقال ہوا۔ ایک ضخیم دیوان’’غنچۂ آرزو‘‘ ان کی یادگار ہے۔
मीर-ए-बे-ख़िरदمیرؔ بے خرد
irrational Miir (Pen name)
گلستان بے خزاں
میر قطب الدین باطن
تذکرہ
گلستان بے خزان
نامعلوم مصنف
انشائ بہار بیخزاں
مسدس تہنیت جشن بے نظیر
میر یار علی جان
نثر بے نظیر
میر بہادر علی حسینی
داستان
نسخۂ انشاء بہار بے خزاں
برگ بے خزاں
عزیز خیرآبادی
انشائے بہار بے خزاں
منشی غلام امام شہید
مطبوعات منشی نول کشور
چمن بے خزاں
سالک رام
انتخاب
مرثیہ
میر خلیق
مجموعہ مثنویات میر حسن
مثنوی
مسدس مسمیٰ بہ آئینہ اخلاص
میر محبوب علی
نیر اعظم
میر خیرات علی منجم
دیگر
بہ نوک خار می رقصم
خورشید الاسلام
غزل
کہاں ہو دفن پوشیدہ کہاں ہویہ ہم پوچھیں گے میرؔ بے نشاں سے
چند روزہ ہے یہ مے خانۂ ہستی یاں توعمر غفلت میں نہ اے بے خرد و ہوش گزار
بے خرد خانقہ میں ہیں گو مستوہ کرے مست یک نگاہ تو کیا
کر میرؔ کے حال پر ترحموہ شہر غریب و بے وطن ہے
تڑپے ہے متصل وہ کہاں ایسے روز و شبہے فرق میرؔ برق و دل بے قرار میں
جینا ہے تو بے طاقتی و بے خودی ہے میرؔمردہ ہے غرض عشق کا بیمار ہمیشہ
شیخ تو نے خوب سمجھا میرؔ کوواہ وا اے بے حقیقت واہ واہ
نہ کریے گریۂ بے اختیار ہرگز میرؔجو عشق کرنے میں دل پر کچھ اختیار رہے
دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔآیا نظر تو بسمل در خوں تپیدہ تھا
ایسے بت بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھیدل میرؔ کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books