aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "خول"
میخائیل شولو خوف
مصنف
منشی خوش وقت علی خورشید
شاعر
قمرالدین خال دہلوی
سر خوش
اشوک خوش دل
خوش دل خان پوری
مدیر
شب خون کتاب گھر، الہ آباد
ناشر
خوب داد خان خوب
بنسی خوب چندانی
خوش دلان پبلی کیشنز، بنگلور
سید سیاح الدین کاکا خیل
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیںیہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
خود کو جانا جدا زمانے سےآ گیا تھا مرے گمان میں کیا
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئےجسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکندل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھیسو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
کچھ اچھی اور معتبر خواتین کی خود نوشتوں کی ایک منتخب فہرست یہاں پیش کی جارہی ہے
یہاں وہ غزلیں دی جا رہی ہیں جسمیں جسے اکثر ریڈیو پر سنا جاتا تھا
عید ایک تہوار ہے اس موقعے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن عاشق کیلئے خوشی کا یہ موقع بھی ایک دوسری ہی صورت میں وارد ہوتا ہے ۔ محبوب کے ہجر میں اس کیلئے یہ خوشی اور زیادہ دکھ بھری ہوجاتی ہے ۔ کبھی وہ عید کا چاند دیکھ کر اس میں محبوب کے چہرے کی تلاش کرتا ہے اور کبھی سب کو خوش دیکھ کر محبوب سے فراق کی بد نصیبی پر روتا ہے ۔ عید پر کہی جانے والی شاعری میں اور بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب پڑھئے ۔
ख़ोलخول
mask
جون ایلیا-خوش گزراں گزر گئے
نسیم سید
مقالات/مضامین
شہاب نامہ
قدرت اللہ شہاب
خود نوشت
یادوں کی برات
جوش ملیح آبادی
آتش چنار
شیخ محمد عبداللہ
رسیدی ٹکٹ
امرتا پریتم
اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء
ممتاز فاخرہ
تنقید
آپ بیتی علامہ اقبال
ڈاکٹر خالد ندیم
گرد راہ
اختر حسین رائے پوری
اس آباد خرابے میں
اختر الایمان
اپنا گریباں چاک
جاوید اقبال
یادگار غالب
الطاف حسین حالی
شاعری تنقید
زرگزشت
مشتاق احمد یوسفی
نثر
ذکر میر
میر تقی میر
میر کی آپ بیتی
خودنوشت
بجنگ آمد
کرنل محمد خان
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلودھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکااس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
ایک دن تو اپنے جھوٹے خول کو توڑے گا وہایک دن تو اس کا دروازہ کھلا مل جائے گا
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیںمیرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کوگاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیابات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
صرف خول باقی ہےآج میرے بستر میں
میں نے جسم کا خول اتار کے سونپ دیا ۔۔۔اور روح بچا لی!پورے کا پورا آکاش گھما کر اب تم دیکھو بازی!!
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔ اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books