aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "لقب"
ماہ لقا چندا
1768 - 1824
شاعر
حاجی لق لق
1894 - 1961
مہ لقا اعجاز
born.1945
مدیر
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیںیار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہےہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں
کھائی قسم خدا نے اسی صبح و شام کیکس منہ سے کیجئے لب جان بخش کا بیاں
خورشید فلک پرتو عارض کا لقب ہے یہ قدرت رب قدرت رب قدرت رب ہے
نبوت کے دریا کا در یتیمہوا گو کہ ظاہر میں امی لقب
میر 18ویں صدی کے جدید شاعر ہیں ۔اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں بھی میر کی خدمات بیش بہا ہیں ۔خدائے سخن میر کے لقب سے معروف اس شاعر نے اپنے بارے میں کہا تھا میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ ریختہ ان کے 20 معروف و مقبول ،پسندیدہ اور مؤقراشعار کا مجموعہ پیش کر رہاہے ۔ ان اشعار کا انتخاب بہت سہل نہیں تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ اب بھی میر کے کئی مقبول اشعار اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں آپ کی رائے کا خیر مقدم ہے ۔اگر ہماری مجلس مشاورت آپ کے پسندیدہ شعر کو اتفاق رائے سے پسند کرتی ہے تو ہم اس کو نئی فہرست میں شامل کریں گے ۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہوگی اور آپ اس فہرست کو سنوارنے اور آراستہ کرنے میں معاونت فرمائیں گے۔
محبوب کے لبوں کی تعریف وتحسین اور ان سے شکوہ شکایت شاعری میں عام ہے ۔ لبوں کی خوبصورتی اور ان کی نازکی کے مضمون کو شاعروں نے نئے نئے دڈھنگ سے باندھا ہے ۔ لبوں کے شعری بیان میں ایک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان پر ایک گہری چپ پڑی ہوئی ہے ، وہ ہلتے نہیں عاشق سے بات نہیں کرتے ۔ یہ لب کہیں گلاب کی پنکھڑی کی طرح نازک ہیں تو کہیں ان سے پھول جھڑتے ہیں ۔اس مضمون میں اور بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ دنیا کے لئے اور بالخصوص بر صغیر کے لئے خاصہ ہنگامہ خیز تھا۔ نئی صدی کی دستک نے نئے افکار و خیالات کے لئے ایک زرخیز زمین تیّار کی اور مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم پر قدغن لگانے کا کام کیا۔ اس پس منظر نے اردو شاعری کے موضوعات اور اظہار کےمحاورے یکسر بدل کر رکھ دئے اور اس تبدیلی کی بہترین مثال علامہ اقبالؔ کی شاعری ہے۔ اقبالؔ کی شاعری نے اس زمانے میں نئے افکار اور روشن خیالات کا ایک ایسا حسین مرقع تیار کیا جس میں شاعری کے جملہ لوازمات نے اسلامی کرداروں اور تلمیحات کے ساتھ مل کر ایک جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ لوگوں کو بیدار کرنے اور ان کے اندر ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اقبالؔ کی شاعری نے عالمی ادب کے جیّدوں سے خراج حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ تنازعات کا محور بھی بنی رہی۔ اقبال بلا شبہ اپنے عہد کے ایسے شاعر تھے جنہیں تکریم و تعظیم حاصل ہوئی اور ان کے بارے میں آج بھی مستقل لکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے بچوں کے لئے جو شاعری کی ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ان کی کئی نظموں کے مصرعے اپنی سادگی اور شکوہ کے سبب آج بھی زبان زد عام ہیں۔ مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا یا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کا آج بھی کوئی بدل نہیں۔ یہاں ہم اقبالؔ کے مقبول ترین اشعار میں سے صرف ۲۰ اشعار آپ کی نذر کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ترجیحات سے ہمیں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ اس انتخاب کو مزید جامع شکل دی جا سکے۔ ہمیں آپ کے بیش قیمت تاثرات کا انتظار رہے گا۔
लक़बلقب
title, by-name
उपाधि, खिताब, ऐसा नाम जिसमें उस व्यक्ति के गुणों का पता चले।।
زیر لب
صفیہ اختر
تاریخ و تنقید
دیوان مہ لقابائی چندا
دیوان
لب گویا
آغا بابر
افسانہ
ادب کثیف
شاعری
ماہ لقا
راحت عزمی
فصیل لب
رشید قیصرانی
غزل
کشور ناہید
جنبش لب
سید ظہیر جعفری
حیات ماہ لقا چندا
سوانح حیات
خاموشی لب کھول رہی ہے
اشہد کریم الفت
آواز لق لق
نثر
مہ لقا
مرتب
مضامین لق لق
قصہ / داستان
ماہ لقا اور دوسری نظمیں
عزیز احمد
نظم
لب مماس
جابر حسین
مجھ کو جو موج نفس ديتي ہے پيغام اجل لب اسي موج نفس سے ہے نوا پيرا ترا
مہر لب شہ ہوئی خموشیکی نور بصر سے چشمک پوشی
پنہاں درازیٔ پر طاؤس شب ہوئی اور قطع زلف لیلی زہرہ لقب ہوئی
گاہ بشاخ درخت گہ بہ لب جوئبار یعنی ہلکی ہلکی ہوا آئی، پھولوں میں گھسی، کسی پھول کا گال چوم لیا، کسی کی ٹھوڑی چوس لی، کسی کے بال کھینچے، کسی کی گردن دانت سے کاٹی، کیاریوں میں کھیلتے کھیلتے چنبیلی کے پاس پہنچی اور درخت کی ٹہنیوں میں سے...
کالج میں شاہد ہ حسین ترین لڑکی تھی۔ اس کو اپنے حسن کا احساس تھا۔ اسی لیے وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتی اور خود کو مغلیہ خاندان کی کوئی شہزادی سمجھتی۔ اس کے خدوخال واقعی مغلئی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ نور جہاں کی تصویر جو اس...
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والامرادیں غریبوں کی بر لانے والا
نہ جانے کتنے لقب دے رہا ہے دل تم کوحضور جان وفا اور ہم نوا صاحب
ان کو نہ پکارو غم دوراں کے لقب سےجو درد کسی نام سے منسوب رہے ہیں
دردانہ، ’’چاندنی تو مجھے اس لیے اچھی معلوم ہوتی ہے کہ میں اس میں زیادہ جوش سے اپنے بربط کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتی ہوں اور اپنے ساز و موسیقی سے اس لیے لگاؤ ہے کہ یہ میری پرستش ہے۔ یوں سمجھ لو کہ چاندنی رات سنہرا فرش ہے،...
یعنی اُس نور کے میدان میں پہنچا کہ جہاںخرمنِ برقِ تجلٰی کا لقب ہے بادل
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books