aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "گھاؤ"
’’کلونت! میری جان۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔۔۔ گہنے پاتے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیے۔۔۔ لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔‘‘ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔’’کون سی بات؟‘‘
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
ہے جراحت اور زخم اور گھاؤ ریشبھینس کو کہتے ہیں بھائی گاؤ میش
اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھےتھا ویدوں پر وشواش بہت
جل اٹھیں روح کے گھاؤ تو چھڑک دیتا ہوںچاندنی میں تری یادوں کی مہک حل کر کے
تخلیقی زبان ترسیل اور بیان کی سیدھی منطق کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ علامتیں ہیں کچھ استعارے ہیں جن کے پیچھے واقعات ، تصورات اور معانی کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے ۔ صیاد ، نشیمن ، قفس جیسی لفظیات اسی قبیل کی ہیں ۔ شاعری میں صیاد چمن میں گھات لگا کر بیٹھنے والا ایک شخص ہی نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی کرداری صفت اس کے جیسے تمام لوگوں کو اس میں شریک کرلیتی ہے ۔ اس طور پر ایسی لفظیات کا رشتہ زندگی کی وسعت سے جڑ جاتا ہے ۔ یہاں صیاد پر ایک چھوٹا سا انتخاب پڑھئے ۔
घावگھاؤ
wound, cut
چاندی کے گھاؤ
کرشن چندر
ناول
حاصل گھاٹ
بانو قدسیہ
خواتین کی تحریریں
فٹ پاتھ کی گھاس
ڈرامہ
چاندی کا گھاؤ
ایک دل سو گھاؤ
کرشن گوپال عابد
افسانہ
گھاس میں تتلیاں
وزیر آغا
مجموعہ
بات میں گھات
فکر تونسوی
نثر
ہری گھاس اور سرخ گلاب
اختر جمال
وشواس گھات
جتیندر بلّو
گھریلو دھوبی گھاٹ
خواجہ حسن نظامی
صنعت و حرفت
بے گھاٹ کی ناؤ
نور شاہ
گھاٹ کا پتھر
گلشن نندہ
یہ گھاؤ یہ پھول
وشو ناتھ درد
کہانی
گھاؤ
نریندر شرما
تم جسے چاند کہتے ہو وہ اصل میںآسماں کے بدن پر کوئی گھاؤ ہے
کس لئے آج یہ دیس بدیس ہو گیا ہے۔ میں چلتی جا رہی تھی اور ڈبوں میں بیٹھی ہوئی مخلوق اپنے وطن کی سطح مرتفع، اس کے بلند و بالا چٹانوں، اس کے مرغزاروں، اس کی شاداب وادیوں، کنجوں اور باغوں کی طرف یوں دیکھ رہی تھی، جیسے ہر جانے پہچانے منظر کو اپنے سینے میں چھپا کر لے جانا چاہتی ہو جیسے نگاہ ہر لحظہ رک جائے، اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس عظیم رنج و الم ک...
روؤں کہ ہنسوں سمجھ نہ آئےہاتھوں میں ہیں پھول دل میں گھاؤ
کون گماں یقیں بنا کون سا گھاؤ بھر گیاجیسے سبھی گزر گئے جونؔ بھی کل گزر گیا
بڑے سلیقے سے دنیا نے میرے دل کو دیےوہ گھاؤ جن میں تھا سچائیوں کا چرکا بھی
آنکھ آئینوں کی حیرت نہیں جاتی اب تکہجر کا گھاؤ بھی اس نے دیا پہلے پہلے
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرالگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تکملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
سب چاندنی سے خوش ہیں کسی کو خبر نہیںپھاہا ہے ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر
ایک ذرا سی بھول پہ ہم کو اتنا تو بد نام نہ کرہم نے اپنے گھاؤ چھپا کر تیرے کاج سنوارے ہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books