- کتاب فہرست 188058
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1964
طب913 تحریکات298 ناول4618 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1448
- دوہا65
- رزمیہ111
- شرح198
- گیت83
- غزل1165
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1579
- کہہ مکرنی6
- کلیات688
- ماہیہ19
- مجموعہ5034
- مرثیہ379
- مثنوی829
- مسدس58
- نعت550
- نظم1246
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی19
- قطعہ62
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
تمام
تعارف
ای-کتاب202
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 43
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے افسانے
رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
حافظ حسین دین
یہ تعویز غنڈے کے سہارے لوگوں کو ٹھگنے والے ایک فرضی پیر کی کہانی ہے۔ حافظ حسین دین آنکھوں سے اندھا تھا اور ظفر شاہ کے یہاں آیا ہوا تھا۔ ظفر سے اس کا تعلق ایک جاننے والے کے ذریعے ہوا تھا۔ ظفر پیر اولیا پر بہت یقین رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے حسین دین نے اسے مالی طور پر خوب لوٹا اور آخر میں اس کی منگیتر کو ہی لیکر فرار ہو گیا۔
جھمکے
سُنار کی اُنگلیاں جھمکوں کو برش سے پالش کر رہی ہیں جھمکے چمکنے لگتے ہیں ستار کے پاس ہی ایک آدمی بیٹھا ہے جھمکوں کی چمک دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اُٹھتی ہیں بڑی بے تابی سے وہ اپنے ہاتھ ان جھمکوں کی طرف بڑھاتا ہے اور سُنار کہتا ہے، ’’بس اب رہنے دو مجھے‘‘
کتاب کا خلاصہ
سردیوں میں انور ممٹی پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بھانجا اس کے ساتھ تھا۔ چونکہ انور کے والد کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور وہ دیر سے واپس آنے والے تھے اس لیے وہ پوری آزادی اور بڑی بے پروائی سے پتنگ بازی میں مشغول تھا۔ پیچ ڈھیل کا تھا۔ انور بڑے زوروں
تین میں نہ تیرہ میں
افسانہ میاں بیوی کے درمیان ہونے والی نوک جھونک پر مبنی ہے۔ بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہے اور اس کے ساتھ جھگڑتے ہوئے محاوروں کا استعمال کرتی ہے۔ شوہر اس کے ہر محاورے کا جواب دیتا ہے اور وہ دونوں جھگڑتے ہوئے عورت مرد کے تعلقات، شادی اور خانگی امور کے بارے میں بڑی دلچسپ گفتگو کرتے جاتے ہیں۔
خواب خرگوش
سریّا ہنس رہی تھی۔ بے طرح ہنس رہی تھی۔ اس کی ننھی سی کمر اس کے باعث دہری ہوگئی تھی۔ اس کی بڑی بہن کو بڑا غصہ آیا۔ آگے بڑھی تو ثریا پیچھے ہٹ گئی اور کہا، ’’جا میری بہن، بڑے طاق میں سے میری چوڑیوں کا بکس اٹھالا۔ پر ایسے کہ امی جان کو خبر نہ ہو۔‘‘ ثریا
پھاہا
عنفوان شباب میں ہونے والی جسمانی تبدیلیوں سے بے خبر ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ آم کھانے سے گوپال کے پھوڑا نکل آتا ہے تو وہ اپنے والدین سے چھپ کر اپنی بہن نرملا کی مدد سے پھوڑے پر پھاہا رکھتا ہے۔ نرملا اس پورے عمل کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھتی ہے اور گوپال کے جانے کے بعد اپنے سینے پر پھاہا رکھتی ہے۔
سرمہ
فہمیدہ کو سرمہ لگانے کا بے حد شوق تھا۔ شادی کے بعد شوہر کے ٹوکنے پر اس نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ پھر اس نے نومولود بچے کے سرمہ لگانا شروع کیا لیکن وہ ڈبل نمونیا سے مر گیا۔ ایک دن جب فہمیدہ کے شوہر نے اسے جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اور اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔
شو شو
گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے۔ اور وہ شور برپا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں تو دوسرے کمرے میں چھوٹی چھوٹی
محمودہ
عورت اسلیے بری نہیں ہوتی کہ وہ بری ہے، بلکہ اس لیے بری ہوتی ہے کہ مرد اسے برا بنا دیتا ہے۔ بڑی بڑی آنکھوں والی محمودہ ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی، اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی، لیکن اپنے شوہر کے ناکارہ پن کی وجہ سے وہ جسم بیچنے کے دھندے میں اتر گئی۔
ڈھارس
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے شراب پینے کے بعد عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دن وہ اپنے ایک ہندو دوست کی بارات میں گیا ہوا تھا۔ وہاں بھی پینے پلانے کا دور چلا۔ کسی نے بھی اس کی اس عادت کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ وہ پینے کے بعد چھت پر چلا گیا۔ وہاں اندھیرے میں لیٹی ایک انجان لڑکی کے ساتھ جاکر وہ سو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دلہن کی بیوہ بہن تھی۔ اس کی اس نازیبا حرکت پر وہ مسلسل رو رہی تھی۔ پھر لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر وہ مان جاتی ہے اور کسی سے کچھ نہیں کہتی۔‘‘
وہ خط جو پوسٹ نہ کیے گئے
یہ افسانہ دس مختصر خطوط کا مجموعہ ہے جو الگ الگ افراد کو طنزیہ اور نیم مزاحیہ پیرائے میں لکھے گئے ہیں۔ کاتب جو ایک عورت ہے اپنے مکتوب الیہ کی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
بس اسٹینڈ
مرد کے دوہرے رویے اور عورت کی معصومیت کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ سلمی ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہے اور شاہدہ اس کی شادی شدہ سہیلی۔ ایک دن سلمی شاہدہ کے گھر جاتی ہے تو شاہدہ اپنے شوہر کی شرافت و امارت کی مبالغہ آمیز تعریف کرتی ہے۔ جب سلمی اپنے گھر واپس جاتی ہے تو راستے میں اسے ایک آدمی زبردستی اپنی کار میں بٹھاتا ہے اور اپنی جنسی بھوک مٹاتا ہے۔ اتفاقاً سلمی اس آدمی کا بٹوہ کھول کر دیکھتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ شاہدہ کا شوہر ہے۔
پھولوں کی سازش
مختلف حیلوں اور بہانوں سے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر کی نشاندہی تمثیلی پیرایہ میں کی گئی ہے۔ ایک دن گلاب مالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور سارے پھولوں کو اپنی آزادی اور حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن چنبیلی اپنی نرم و نازک باتوں سے گلاب کو اپنی طرف ملتفت کرکے اصل مقصد سے غافل کر دیتی ہے۔ صبح مالی آکر دونوں کو توڑ لیتا ہے۔
خالد میاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خالد میاں ایک بہت تندرست اور خوبصورت بچہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ ایک سال کا ہونے والا تھا، اس کی سالگرہ سے دو دن قبل ہی اس کے باپ ممتاز کو یہ وہم ہونے لگا کہ خالد ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائیگا۔ حالانکہ بچہ بالکل تندرست تھا اور ہنس کھیل رہا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، ممتاز کا وہم اور بھی گہرا ہوتا جاتا تھا۔
باسط
مختلف وجہوں سے باسط اس لڑکی سے شادی پر رضامند نہیں تھا جس لڑکی سے اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی تھیں۔ بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ شادی کے بعد باسط کی بیوی سعیدہ ہر وقت خوفزدہ اور چپ چپ سی رہتی تھی جسے ابتدا میں باسط نے نیے ماحول اور سسرال کی جھجھک پر محمول کیا۔ لیکن ایک دن غسل خانہ میں جب سعیدہ کا حمل ضائع ہوا تب باسط کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوا۔ باسط نے سعیدہ کو معاف کر دیا لیکن باسط کی ماں نامکمل بچہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور دنیا سے چل بسی۔
مسٹر معین الدین
’’سماجی رسوخ اور ساکھ کے گرد گھومتی یہ کہانی معین نامی ایک شخص کی شادی شدہ زندگی پر مبنی ہے۔ معین نے زہرہ سے اس کے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی اور پھر کراچی میں آ ن بسا تھا۔ کراچی میں اس کی بیوی کا ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ معین کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن اپنی محبت اور معاشرتی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لیے وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا اور اسے اس کے عاشق کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب عاشق کی موت ہو جاتی ہے تو معین اسے طلاق دے دیتا ہے۔‘‘
منتر
بچوں کی نفسیات، ان کی شرارت اور ذہانت پر مبنی کہانی ہے۔ ایک وکیل صاحب کا بیٹا انتہائی شریر تھا۔ وکیل صاحب کی ساری قانونی موشگافیاں اس کے سامنے دھری کی دھری رہ جاتی تھیں۔ ٹرین کے سفر میں جس طرح منتر پڑھ کر انہوں نے اپنے بیٹے کی غائب ٹوپی واپس حاصل کر لی تھی، اسی طرح ان کے بیٹے نے منتر پڑھ کر ان کے عدالتی کاغذات بھی واپس منگا لیے تھے۔
شاہ دولے کا چوہا
مذہب کے نام پر گورکھ دھندہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ شاہ دولے کے مزار کے بارے میں یہ عقیدہ رائج کر دیا گیا تھا کہ یہاں منت ماننے کے بعد اگر بچہ ہوتا ہے تو پہلا بچہ شاہ دولے کا چوہا ہے اور اسے مزار پر چھوڑنا ضروری ہے۔ سلیمہ کو اپنا پہلا بچہ مجیب اسی عقیدے کے تحت مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ اس کا غم سینے سے لگائے رہی۔ ایک مدت کے بعد جب مجیب اس کے دروازے پر شاہ دولے کا چوہا بن کر آتا ہے تو سلیمہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے اور تماشا دکھانے والے سے پانچ سو کے عوض اسے لے لیتی ہے۔ لیکن جب وہ پیسے دے کر واپس اندر آتی ہے تو مجیب غائب ہو چکا ہوتا ہے۔
آنکھیں
تشنہ جذبات کی کہانی ہے۔ بینائی سے محروم حنیفہ کو وہ اسپتال میں دیکھتا ہے تو اس کی پرکشش آنکھوں پر فدا ہو جاتا ہے۔ حنیفہ کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسپتال اس کے لیے بالکل نئی جگہ ہے اس لیے وہ اس کی مدد کے لیے آگے آتا ہے۔ اس کی پرکشش آنکھوں کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے کے لیے جھوٹ بول کر کہ اس کا گھر بھی حنیفہ کے گھر کے راستے میں ہے، وہ اس کے ساتھ گھر تک جاتا ہے۔ پہنچنے کے بعد جب وہ تانگہ سے اترنے کے لیے بدرو کا سہارا لیتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ بینائی سے محروم ہے اور پھر۔۔۔
نیا قانون
آزادی کے دیوانے منگو کوچوان کی کہانی ہے۔ وہ ناخواندہ ہے پھر بھی اسے ساری دنیا کی معلومات ہے جنھیں وہ اپنی سواریوں سے سن کر معلوم کرتا رہتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون آنے والا ہے جس سے ہندوستان کی انگریزی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اسی خوشی میں وہ قانون لاگو ہونے والی تاریخ کو ایک انگریز سے جھگڑا کر بیٹھتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے۔
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
دودا پہلوان
اس کہانی کا موضوع ایک نوکر کی اپنے مالک سے وفاداری ہے۔ صلاحو نے بچپن سے ہی دودے پہلوان کو اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صلاحو کھل گیا تھا اور ہیرا منڈی کی طوایفوں کے کوٹھوں پر اپنی زندگی گزارنے لگا تھا۔ ایک طوایف کی بیٹی پر وہ اس قدر عاشق ہوا کہ اس کی ساری جایداد نیلام ہو گیی۔ گھر کو قرق ہونے سے بچانے کے لیے اسے بیس ہزار روپیوں کی ضرورت تھی، جو اسے کہیں سے نہ ملے۔ آخر میں دودے پہلوان ہی نے اپنی آن کو فروخت کر اس کے لیے پیسوں کا انتظام کیا۔
موچنا
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے چہرے اور جسم پر مردوں کی طرح بال اگ آتے تھے، جنھیں اکھاڑنے کے لیے وہ اپنے ساتھ ایک موچنا رکھا کرتی تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ کوئی زیادہ خوبصورت نہیں تھی پھر بھی اس میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ جو مرد اسے دیکھتا اس پر عاشق ہو جاتا۔ اس طرح اس نے بہت سے مرد بدلے۔ جس مرد کے بھی پاس بھی وہ گئی اپنا موچنا ساتھ لیتی گئی۔ اگر کبھی وہ پرانے مرد کے پاس چھوٹ گیا تو اس نے خط لکھ کر اسے منگوا لیا۔ جب وہ ایک شاعر کو چھوڑ کر گئی تو اس نے اس کا موچنا دینے سے انکار کر دیا تاکہ رشتہ کی ایک وجہ تو بنی رہے۔
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
آمنہ
یہ افسانہ دولت کی ہوس میں رشتوں کی ناقدری اور انسانیت سے عاری حرکات کر گزرنے والے افراد کے انجام کو پیش کرتا ہے۔ دولت کی حریص سوتیلی ماں کے ستائے ہوئے چندو اور بندو کو جب قسمت نوازتی ہے تو وہ دونوں بھی اپنے مشکل دن بھول کر رشتوں کے تقدس کو مجروح کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چندو اپنے بھائی بندو کے بہکاوے میں آکر اپنی بیوی اور بچے کو صرف دولت کی ہوس میں چھوڑ دیتا ہے۔ جب دولت ختم ہو جاتی ہے اور نشہ اترتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے پاس واپس جاتا ہے۔ اس کا بیٹا اسے اسی دریا کے پاس لے جاتا ہے جہاں چندو کی سوتیلی ماں نے ڈوبنے کے لیے ان دونوں بھائیوں کو چھوڑا تھا اور بتاتا ہے کہ یہاں پر ہے میری ماں۔۔۔
تماشا
دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے، جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں وقتاً فوقتاً کسی آنے والے خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھیں۔ سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہیبت ناک سماں پیش کر
کھول دو
امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گیے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گیے۔ صبح دس بجے۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں
قرض کی پیتے تھے۔۔۔
مرزا غالب کی مے خواری اور قرض کی عدم ادائیگی کی باعث معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں مفتی صدر الدین آزردہ کرسی عدالت پر براجمان ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی غلطی ثابت ہو جانے کے بعد مفتی صدر الدین جرمانہ کی سزا بھی دیتے ہیں اور اپنی جیب خاص سے جرمانہ ادا بھی کر دیتے ہیں۔
برقعے
کہانی میں برقعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہیر نامی نوجوان کو اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس گھر میں تین لڑکیاں ہیں اور تینوں برقعہ پہنتی ہیں۔ ظہیر خط کسی اور کو لکھتا ہے اور ہاتھ کسی اور کا پکڑتا ہے۔ اسی چکر میں اس کی ایک دن پٹائی ہو جاتی ہے اور پٹائی کے فوراً بعد اسے ایک رقعہ ملتا ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر کیوں نہیں بھیجتے۔ آج تین بجے سنیما میں ملنا۔
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
شاداں
امیر گھروں میں کام کرنے والی غریب، مظلوم اور کمسن لڑکیوں کی اس گھر کے مردوں کے ذریعہ ہونے والی جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ خان بہادر محمد اسلم خان بہت مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، جو اسکول کے بعد سارا دن گھر میں شور غل مچاتے رہتے تھے۔ انہیں دنوں ایک عیسائی لڑکی شاداں ان کے گھر میں کام کرنے آنے لگی۔ وہ بھی بچی تھی، لیکن اچانک ہی اس میں جوانی کے رنگ ڈھنگ دکھنے لگے۔ ایک روز خان صاحب کو شاداں کے زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ شاداں تو اسی روز مر گئی تھی اور خان صاحب بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہو گئے تھے۔
حجامت
میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی مزاحیہ افسانہ ہے، جس میں بیوی کو شوہر کے بڑے بالوں سے وحشت ہوتی ہے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے ہزار قسم کے گلے شکوے کرتی ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ بس اتنی سی بات کو تم نے بتنگڑ بنا دیا، میں جا رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے کہ خدا کے لیے بتا دیجیے کہاں جا رہے ہیں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی۔ شوہر جواب دیتا ہے نصرت ہیئر کٹنگ سیلون۔
موذیل
عورت کے ایثار، جذبۂ قربانی اور محبت و ممتا کے ارد گرد بنی گئی کہانی ہے۔ موذیل ایک آزاد مزاج یہودی لڑکی ہے جو پابند وضع سردار ترلوچن کا خوب مذاق اڑاتی ہے لیکن وقت پڑنے پر وہ فساد زدہ علاقے میں جا کر ترلوچن کی منگیتر کو فسادیوں کے چنگل سے آزاد کراتی ہے اور خود فساد کا شکار ہو جاتی ہے۔
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
رامیشگر
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا آیا پرویز مجھے پسند ہے یا نہیں۔ کچھ دنوں سے میں اس کے ایک ناول کا بہت چرچا سن رہا تھا۔ بوڑھے آدمی، جن کی زندگی کا مقصد دعوتوں میں شرکت کرنا ہے، اس کی بہت تعریف کرتے تھے اور بعض عورتیں جو اپنے شوہروں سے بگڑ چکی تھیں اس
موسم کی شرارت
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے، جو کشمیر گھومنے گیا ہے۔ صبح کی سیر کے وقت وہ وہاں کے دلکش مناظر کو دیکھتا ہے اور اس میں کھویا ہوا چلتا چلا جاتا ہے۔ تبھی اسے کچھ بھینسوں، گایوں اور بکریوں کو لیے آتی ایک چرواہے کی لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسے اتنی خوبصورت نظر آتی ہے کہ اسے اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی گھر جاتے ہوئے تین بار اسے مڑ کر دیکھتی ہے۔ کچھ دیر اس کے گھر کے پاس کھڑے رہنے کے دوران بارش ہونے لگتی ہے، اور جب تک وہ ڈاک بنگلے پر پہنچتا ہے تب تک وہ پوری طرح بھیگ جاتا ہے۔
اصلی جن
ہم جنسیت کے تعلقات پر مبنی کہانی۔ فرخندہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا تو وہ اکیلے اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ جوانی کا سفر اس نے تنہا ہی گزار دیا۔ جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو اس کی ملاقات نسیمہ سے ہوئی۔ نسیمہ ایک پنجابی لڑکی تھی، جو حال ہی میں پڑوس میں رہنے آئی تھی۔ نسیمہ ایک لمبی چوڑی مردوں کی خصلت والی خاتون تھی، جو فرخندہ کو بھا گئی تھی۔ جب فرخندہ کی ماں نے اس کا نسیمہ سے ملنا بند کر دیا تو وہ نیم پاگل ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اس پر جن ہے، پر جب ایک دن چھت پر اس کی ملاقات نسیمہ کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تو اس کے سبھی جن بھاگ گئے۔
خوشبو دار تیل
’’آپ کا مزاج اب کیسا ہے؟‘‘ ’’یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔ اچھا بھلا ہوں۔۔۔ مجھے کیا تکلیف تھی۔۔۔‘‘ ’’ تکلیف تو آپ کو کبھی نہیں ہوئی۔۔۔ ایک فقط میں ہوں جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی تکلیف یا عارضہ چمٹا رہتا ہے۔۔۔‘‘ ’’یہ تمہاری بد احتیاطیوں کی وجہ سے
قبض
نئے لکھے ہوئے مکالمے کا کاغذ میرے ہاتھ میں تھا۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کیمرے کے پاس سامنے کھڑے تھے۔ شوٹنگ میں ابھی کچھ دیر تھی۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو کے ساتھ والا صابن کا کارخانہ چل رہا تھا۔ ہر روز اس کارخانے کے شور کی بدولت ہمارے سیٹھ صاحب کا کافی نقصان ہوتا
پھوجا حرام دا
ٹی ہاؤس میں حرامیوں کی باتیں شروع ہوئیں تو یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ ہر ایک نے کم از کم ایک حرامی کے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے جس سے اس کو اپنی زندگی میں واسطہ پڑ چکا تھا۔ کوئی جالندھر کا تھا۔ کوئی لدھیانے کا اور کوئی لاہور کا۔ مگر سب کے سب اسکول
والد صاحب
یہ ایک نیم مزاحیہ رومانی کہانی ہے۔ توفیق کے والد صاحب ڈی ایس پی تھے جو ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہاں توفیق کی نظر ایک نرس سے لڑ گئی اور جس شام کو توفیق نرس کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جانے والا تھا اسی شام اس نے والد کو نرس کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا۔ جس وقت توفیق وارڈ میں داخل ہوا اس کے ساتھ اس کی والدہ بھی تھیں۔
وہ لڑکی
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے فسادات کے دوران چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ ایک دن وہ گھر میں تنہا تھا تو اس نے باہر درخت کے نیچے ایک لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ اشاروں سے اسے بلانے میں ناکام رہنے کے بعد وہ اس کے پاس گیا اور زبردستی اسے اپنے گھر لے آیا۔ جلدی ہی اس نے اسے قابو میں کر لیا اور چومنے لگا۔ بستر پر جانے سے پہلے لڑکی نے اس سے پستول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے اپنی پستول لاکر اسے دے دی۔ لڑکی نے پستول ہاتھ میں لیتے ہی چلا دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو لڑکی نے بتایا کہ اس نے جن چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا ان میں ایک اس لڑکی کا باپ بھی تھا۔
ٹیڑھی لکیر
ایک آزادی پسند، اذیت پسند، صاف گو اور ڈگر سے ہٹ کر کچھ انوکھا کرنے کی دھن رکھنے والے شخص کی کہانی ہے جو اپنی انفرادیت پسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک رات اپنی منکوحہ بیوی کو ہی سسرال سے بھگا لے جاتا ہے۔
کبوتروں والا سائیں
افسانہ انسانی عقائد اور توہمات پر مبنی ہے۔ مائی جیواں کے نیم پاگل بیٹے کو صاحب کرامات سمجھنا، سندر جاٹ ڈاکو جس کا وجود تک مشکوک ہے اس سے گاؤں والوں کا خوف زدہ رہنا، نیتی کے غائب ہونے کو سندرجاٹ سے وابستہ کرنا ایسے مفروضے ہیں جن کی تصدیق کے کوئی دلائل نہیں۔
پھندنے
افسانے کا موضوع جنس اور تشدد ہے۔ افسانے میں بیک وقت انسان اور جانور دونوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ جنسی عمل سے برآمد ہونے والے نتائج کو تسلیم نہ کر پانے کی صورت میں بلی کے بچے، کتے کے بچے، ڈھلتی عمر کی عورتیں، جن میں جنسی کشش باقی نہیں وہ سب کے سب موت کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
مجید کا ماضی
’’عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کرنے والے ایک ایسے دولت مند شخص کی کہانی ہے جس کے پاس کوٹھی ہے، اچھی تنخواہ ہے، بیوی بچے ہیں اور ہر طرح کی عیش و عشرت ہے۔ ان سب کے درمیان اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا ہے۔ وہ سکون جو اسے یہ سب حاصل ہونے سے پہلے تھا، جب اس کی تنخواہ کم تھی، بیوی بچے نہیں تھے، کاروبار تھا اور نہ ہی دوسرے مسایل۔ وہ سکون سے تھوڑا کماتا تھا اور چین و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب سارے عیش و آرام کے بعد بھی اسے وہ سکون نصیب نہیں ہے۔‘‘
join rekhta family!
-
ادب اطفال1964
-