سائل دہلوی کے اشعار
کھل گئی شمع تری ساری کرامات جمال
دیکھ پروانے کدھر کھول کے پر جاتے ہیں
آہ کرتا ہوں تو آتے ہیں پسینے ان کو
نالہ کرتا ہوں تو راتوں کو وہ ڈر جاتے ہیں
ہمیشہ خون دل رویا ہوں میں لیکن سلیقے سے
نہ قطرہ آستیں پر ہے نہ دھبا جیب و دامن پر
محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا
کن نے پی کن نے نہ پی کن کن کے آگے جام تھا
معلوم نہیں کس سے کہانی مری سن لی
بھاتا ہی نہیں اب انہیں افسانہ کسی کا
تم آؤ مرگ شادی ہے نہ آؤ مرگ ناکامی
نظر میں اب رہ ملک عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محبت میں جینا نئی بات ہے
نہ مرنا بھی مر کر کرامات ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے
یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا
جھڑی ایسی لگا دی ہے مرے اشکوں کی بارش نے
دبا رکھا ہے بھادوں کو بھلا رکھا ہے ساون کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جناب شیخ مے خانہ میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنس دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے
خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ مسجد ہے یہ مے خانہ تعجب اس پر آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ