aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aftab Hussain's Photo'

آفتاب حسین

1962 | آسٹریا

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

آفتاب حسین کے اشعار

5.3K
Favorite

باعتبار

وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا

وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

کچھ اور طرح کی مشکل میں ڈالنے کے لیے

میں اپنی زندگی آسان کرنے والا ہوں

لوگ کس کس طرح سے زندہ ہیں

ہمیں مرنے کا بھی سلیقہ نہیں

ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت

ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا

بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ

نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

حال ہمارا پوچھنے والے

کیا بتلائیں سب اچھا ہے

کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی

چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے

دراصل سلسلہ پس پردہ کچھ اور ہے

ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو

تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو

کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے

کب تک ساتھ نبھاتا آخر

وہ بھی دنیا میں رہتا ہے

ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر

اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا

وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی

یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے

جو کچھ نگاہ میں ہے حقیقت میں وہ نہیں

جو تیرے سامنے ہے تماشا کچھ اور ہے

کھلا رہے گا کسی یاد کے جزیرے پر

یہ باغ میں جسے ویران کرنے والا ہوں

حسن والوں میں کوئی ایسا ہو

جو مجھے مجھ سے چرا کر لے جائے

ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں

ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی

عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی

رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں

پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے

کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے

دنیا سے علیحدگی کا راستہ

دنیا سے نباہ کر کے دیکھا

کب بھٹک جائے آفتابؔ حسین

آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں

وہ سر سے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا

میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا

وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ

کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں

ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں

وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے

دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا

ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا

کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں

اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ

اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں

کیا خبر میرے ہی سینے میں پڑی سوتی ہو

بھاگتا پھرتا ہوں جس روگ بھری رات سے میں

ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی

ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے

فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے

اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا

سو اپنے ہاتھ سے دیں بھی گیا ہے دنیا بھی

کہ اک سرے کو پکڑتے تو دوسرا جاتا

ترے بدن کے گلستاں کی یاد آتی ہے

خود اپنی ذات کے صحرا کو پار کرتے ہوئے

یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح

گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے

کچھ ربط خاص اصل کا ظاہر کے ساتھ ہے

خوشبو اڑے تو اڑتا ہے پھولوں کا رنگ بھی

گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں

کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں

دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ

سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے

کن منظروں میں مجھ کو مہکنا تھا آفتابؔ

کس ریگزار پر ہوں میں آ کر کھلا ہوا

اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر

یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو

گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر

جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا

کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا

ہمارے کام ہمارا ہنر نہیں آیا

ترے افق پہ سدا صبح جگمگاتی رہے

جہاں پہ میں ہوں وہاں شام ہونے والی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے