میر حسن کے اشعار
دوستی کس سے نہ تھی کس سے مجھے پیار نہ تھا
جب برے وقت پہ دیکھا تو کوئی یار نہ تھا
آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی
کیا شکوہ کریں کنج قفس کا دل مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا
شب اول تو توقع پہ ترے وعدے کے
سہل ہوتی ہے بلا ہوتی ہے پر آخر شب
دل و جاں جو ہیں یہ سو اپنے نہیں
سمجھتے ہیں ان کو تو ہم آپ کا
ہو ضبط نالہ کیونکہ دل ناتواں میں آہ
آتش کہیں چھپائے سے چھپتی ہے خس کے بیچ
جب دیکھو ہوں اس کو تو مجھے آتا ہے یہ رشک
کس کس کا یہ منظور نظر ہووے گا یا رب
اظہار خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کوچۂ یار ہے اور دیر ہے اور کعبہ ہے
دیکھیے عشق ہمیں آہ کدھر لاوے گا
عشق کا اب مرتبہ پہنچا مقابل حسن کے
بن گئے بت ہم بھی آخر اس صنم کی یاد میں
جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو
نت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا
میں نے جو کہا مجھ پہ کیا کیا نہ ستم گزرا
بولا کہ ابے تیرا روتے ہی جنم گزرا
مرے آئینۂ دل کا اسے منظور تھا لینا
جو غیروں میں کہا بھونڈا برا بد رنگ ناکارہ
کعبے کو گیا چھوڑ کے کیوں دل کو تو اے شیخ
ٹک جی میں سمجھتا تو سہی یاں بھی تو رب تھا
ناقہ سے دور رہ گیا آخر نہ قیس تو
کہتے نہ تھے کہ پاؤں سے مت کھینچ خار کو
نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام
روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام
فرقت کی شب میں آج کی پھر کیا جلاویں گے
دل کا دیا تھا ایک سو کل ہی جلا دیا
بت خانۂ دل میرا کعبے کے برابر ہے
واجب ہے تجھے جاناں اکرام مرے دل کا
اس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا
آہ کیا شکوہ کروں میں ہاتھ سے اس کے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا
مو سے سپید نے نمک اس میں ملا دیا
کیفیت اب رہی نہیں جام شراب میں
میں نے پایا نہ اسے شہر میں نہ صحرا میں
تو نے لے جا کے مرے دل کو کہاں چھوڑ دیا
نہ لیٹ اس طرح منہ پر زلف کو بکھرا کے اے ظالم
ذرا اٹھ بیٹھ تو اس دم کہ دونوں وقت ملتے ہیں
وصل کی شب کا مزہ ہوتا ہے اول جیسے
ویسے ہی ہوتا ہے احوال بتر آخر شب
ناصحوں کے ہاتھ سے چھوڑیں گے رہنا شہر کا
دیکھتے ہیں اور دن دو چار اب بنتی نہیں
جیسے کہ آج وصل ہوا کیا نہ چاہیئے
اک دن بھی آوے ایسا اگر سو برس کے بیچ
گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت
ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا
اس شوخ کے جانے سے عجب حال ہے میرا
جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا
کس وقت میں بسا تھا الٰہی یہ ملک دل
صدمے ہی پڑتے رہتے ہیں نت اس دیار پر
وہ تیرہ بخت ہوں کہ حسنؔ میری بزم میں
داغ سیہ چراغ ہے اور دود آہ شمع
رکھوں کہاں میں اپنے پری زاد کو حسنؔ
شیشہ جو ایک دل کا مرے ہے سو چور ہے
آباد گر وہ چاہے دل کو تو کر سکے ہے
منظور ہے پر اس کو میرا خراب رکھنا
خدا جانے پلک سے کیونکہ لگتی ہے پلک ہمدم
کبھی آنکھوں سے ہم نے تو نہ دیکھا اپنے سونے کو
دل اپنا انہیں باتوں سے اٹھ جاتا ہے تجھ سے
جا بیٹھے ہے تو مل کو جو ہر ناکس و کس میں
درد کرتا ہے تپ عشق کی شدت سے مرا
سر جدا سینہ جدا قلب جدا شانہ جدا
کیا تھا کہ آج ناقہ بے ساربان پایا
مجنوں کے ہاتھ ہم نے اس کی مہار دیکھی
گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا
کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا
کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا
مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ
سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ
ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی
بس اب چوپڑ اٹھاؤ اور کچھ باتیں کریں صاحب
جو میں جیتا تو تم جیتے جو تم ہارے تو میں ہارا
کیا جانئے کہ باہم کیوں ہم میں اور اس میں
موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا
ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز
کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے
وصل میں بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ
کہ تجھے ایسا بھلا دوں کہ بہت یاد کرے