Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shad Azimabadi's Photo'

شاد عظیم آبادی

1846 - 1927 | پٹنہ, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں

شاد عظیم آبادی کے اشعار

15.8K
Favorite

باعتبار

بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو

تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے

ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی

ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی

دیکھنے والے کو تیرے دیکھنے آتے ہیں لوگ

جو کشش تجھ میں تھی اب وو تیرے دیوانہ میں ہے

تسکین تو ہوتی تھی تسکین نہ ہونے ث

رونا بھی نہیں آتا ہر وقت کے رونے سے

کہتے ہیں اہل ہوش جب افسانہ آپ کا

ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے دیوانہ آپ کا

جیتے جی ہم تو غم فردا کی دھن میں مر گئے

کچھ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے

پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا

گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

غنچوں کے مسکرانے پہ کہتے ہیں ہنس کے پھول

اپنا کرو خیال ہماری تو کٹ گئی

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے

ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے

تمہارے حسن کی شرحیں لکھی ہیں ان رسالوں میں

اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ

تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا

ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں

ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا

جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی

محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر

عید میں عید ہوئی عیش کا ساماں دیکھا

دیکھ کر چاند جو منہ آپ کا اے جاں دیکھا

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے

بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ

ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم

کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی

شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے

تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا

چشم تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا

خاروں سے یہ کہہ دو کہ گل تر سے نہ الجھیں

سیکھے کوئی انداز شریفانہ ہمارا

نگاہ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھ کو

مرا وہ ہاتھ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا

کچھ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں

ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا

تیرے بیمار محبت کی یہ حالت پہنچی

کہ ہٹایا گیا تکیہ بھی سرہانے والا

نازک تھا بہت کچھ دل میرا اے شادؔ تحمل ہو نہ سکا

اک ٹھیس لگی تھی یوں ہی سی کیا جلد یہ شیشہ ٹوٹ گیا

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا

زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا

ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل

حلال کرنے مجھے عید کا ہلال آیا

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا

کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

اجل بھی ٹل گئی دیکھی گئی حالت نہ آنکھوں سے

شب غم میں مصیبت سی مصیبت ہم نے جھیلی ہے

کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی

خم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا

میں شادؔ تنہا اک طرف اور دنیا کی دنیا اک طرف

سارا سمندر اک طرف آنسو کا قطرہ اک طرف

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا

دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنا کچھ سوچ کے اس کا رہ جانا

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ

ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم

میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا

دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا

جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں

ستم دیکھو کہ وہ بھی چھوٹتے پہچان لیتے ہیں

ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے