Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aanis Moin's Photo'

آنس معین

1960 - 1986 | ملتان, پاکستان

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

آنس معین کے اشعار

17.2K
Favorite

باعتبار

گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو

وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا

پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن

پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو

ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن

جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے

گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں

وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج

اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری

میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم

کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں

آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا

آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو

لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے

مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

گونجتا ہے بدن میں سناٹا

کوئی خالی مکان ہو جیسے

درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے

دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے

آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا

تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر

کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد

اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ

باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا

وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا

تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا

یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں

میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا

نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں

کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار

اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا

دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے