aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Amjad Islam Amjad's Photo'

امجد اسلام امجد

1944 - 2023 | لاہور, پاکستان

معروف شاعر اور پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

معروف شاعر اور پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

امجد اسلام امجد کے اشعار

13.9K
Favorite

باعتبار

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں

عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے

جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں

سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

اس کے لہجے میں برف تھی لیکن

چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن

کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی

سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا

سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے

ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی

جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ

آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا

کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے

ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور

کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو

بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں

ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا

ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے

کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی

اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے

جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب

دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں

بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم

تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

ہر سمندر کا ایک ساحل ہے

ہجر کی رات کا کنارا نہیں

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے

اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے

یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے

سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے

لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے

ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل

شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں

پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات

گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن

ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں

کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں

تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے

چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی

مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم

ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا

حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے

بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ

لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی

کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر

ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر

دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے

کچھ ایسی بے یقینی تھی فضا میں

جو اپنے تھے وہ بیگانے لگے ہیں

مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند

ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے

تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب

زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے

صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں

بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے

اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا

قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں

سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا

اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں

جس قدر خواہش سفر میں ہیں

دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے

لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے

آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی

سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح

یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن

وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا

شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے

سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے

شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول

ایک لمحہ تھا جو امجدؔ آج تک گزرا نہیں

گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ

یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں

تیر آیا تھا جدھر یہ مرے شہر کے لوگ

کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں

فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا

مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں

وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے

میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے

سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں

رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے