Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anjum Saleemi's Photo'

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

انجم سلیمی کے اشعار

11.9K
Favorite

باعتبار

اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی

تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے

دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو

خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے

اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے

تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے

پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے

وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

مجھ سے خالی ہے میرا آئینہ

آنسوؤں سے بھرا ہوا ہوں میں

پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست

دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے

جانے توڑے تھے کس نے کس کے لیے

پھول میرے گلے پڑے ہوئے تھے

خواب شرمندۂ وصال ہوا

ہجر میں نیند آ گئی تھی مجھے

تم اکیلے میں ملے ہی نہیں ورنہ تم کو

اور ہی طرح کے اک شخص سے ملواتا میں

کسی طرح سے میں ٹل جاؤں اپنی مرضی سے

سو بار بار ارادہ بدل کے دیکھتا ہوں

چکھ رہا تھا میں اک بدن کا نمک

سارے برتن کھلے پڑے ہوئے تھے

میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے

پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے

ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر

سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے

آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی

اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے

ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ

تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج

مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے

سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے

ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری

اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک

میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں

آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں

اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں

یہ بھی آغاز محبت میں بہت ہے مجھ کو

دیکھتا لیتا ہوں اسے ہاتھ لگا لیتا ہوں

چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر

میں نے دریا کا احترام کیا

کر رہا ہوں تجھے خوشی سے بسر

زندگی تجھ سے داد چاہتا ہوں

آتی جاتی ہوئی تنہائی کو پہچانتا ہوں

گھر کے دروازے پہ بیٹھا ہوں سدھایا ہوا میں

میں سب کا سب محبت کے لیے ہوں

سو لا محدود مدت کے لیے ہوں

عشق فرما لیا تو سوچتا ہوں

کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی مجھے

برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ

دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں

مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو

اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ

جو خدا ہو کے آدمی سا لگے

ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں

آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری

کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے

میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں

ہجر میں بھی ہم ایک دوسرے کے

آمنے سامنے پڑے ہوئے تھے

ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا

کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں

میں دل گرفتہ تجھے گنگناتا رہتا ہوں

بہت دنوں سے مرے یار زیر لب ہے تو

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے

سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے

تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں

مٹ کے آسودہ ہو گیا ہوں میں

خاک میں خاک زاد مل گیا ہے

میں اندھیرے میں ہوں مگر مجھ میں

روشنی نے جگہ بنا لی ہے

ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث

آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے

ہجر کو بیچ میں نہیں چھوڑا

سب سے پہلے اسے تمام کیا

خود تک مری رسائی نہیں ہو رہی ابھی

حیرت ہے اس طرف بھی نہیں ہوں جدھر میں ہوں

درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو

تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے

ٹھیک سے یاد بھی نہیں اب تو

عشق نے مجھ میں کب قیام کیا

کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں

آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے

کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا

مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری

معذرت روندے ہوئے پھولوں سے کر لوں تو چلوں

منتظر شہر میں تاخیر سے آیا ہوا میں

میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر

ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے

بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے

دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے