Anjum Saleemi's Photo'

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

انجم سلیمی کے اشعار

8.4K
Favorite

باعتبار

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ

تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں

تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ کر

تم اکیلے میں ملے ہی نہیں ورنہ تم کو

اور ہی طرح کے اک شخص سے ملواتا میں

کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے

کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا

اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے

تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے

مجھ سے خالی ہے میرا آئینہ

آنسوؤں سے بھرا ہوا ہوں میں

ایک بے نام اداسی سے بھرا بیٹھا ہوں

آج دل کھول کے رونے کی ضرورت ہے مجھے

اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو

پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ

جو خدا ہو کے آدمی سا لگے

بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے

دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو

عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں

میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج

مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے

تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے

تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں

اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب

اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں

وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے

مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا

کر رہا ہوں تجھے خوشی سے بسر

زندگی تجھ سے داد چاہتا ہوں

اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک

میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں

چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر

میں نے دریا کا احترام کیا

میں اندھیرے میں ہوں مگر مجھ میں

روشنی نے جگہ بنا لی ہے

سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے

ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری

میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر

ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے

کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں

آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے

ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا

کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں

میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے

پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے

پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست

دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے

میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں

مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو

ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر

سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے

تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں

خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے

ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث

آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے

خواب شرمندۂ وصال ہوا

ہجر میں نیند آ گئی تھی مجھے

کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے

میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں

کھلی ہوئی ہے جو کوئی آسان راہ مجھ پر

میں اس سے ہٹ کے اک اور رستہ بنا رہا ہوں

تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں

ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں

پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے

وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا

میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا

مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی

جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے

مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی

کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے

سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی

ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں

اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی

تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے

عشق فرما لیا تو سوچتا ہوں

کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی مجھے

ٹھیک سے یاد بھی نہیں اب تو

عشق نے مجھ میں کب قیام کیا

بجھنے دے سب دیئے مجھے تنہائی چاہئے

کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہئے

برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ

دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے

کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا

مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری

دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو

خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے

آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی

اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے

درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو

تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے

Recitation

aah ko chahiye ek umr asar hote tak SHAMSUR RAHMAN FARUQI

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے