انجم سلیمی کے اشعار
اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی
تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے
دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو
خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے
اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے
تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے
پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے
وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا
روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں
پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست
دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے
جانے توڑے تھے کس نے کس کے لیے
پھول میرے گلے پڑے ہوئے تھے
تم اکیلے میں ملے ہی نہیں ورنہ تم کو
اور ہی طرح کے اک شخص سے ملواتا میں
کسی طرح سے میں ٹل جاؤں اپنی مرضی سے
سو بار بار ارادہ بدل کے دیکھتا ہوں
چکھ رہا تھا میں اک بدن کا نمک
سارے برتن کھلے پڑے ہوئے تھے
میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے
پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے
ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر
سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے
آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی
اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج
مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے
سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے
ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری
اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک
میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں
آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں
اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں
یہ بھی آغاز محبت میں بہت ہے مجھ کو
دیکھتا لیتا ہوں اسے ہاتھ لگا لیتا ہوں
چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر
میں نے دریا کا احترام کیا
آتی جاتی ہوئی تنہائی کو پہچانتا ہوں
گھر کے دروازے پہ بیٹھا ہوں سدھایا ہوا میں
میں سب کا سب محبت کے لیے ہوں
سو لا محدود مدت کے لیے ہوں
برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ
دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں
مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو
ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں
آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری
کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے
میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں
ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا
کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں
میں دل گرفتہ تجھے گنگناتا رہتا ہوں
بہت دنوں سے مرے یار زیر لب ہے تو
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے
تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے
تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
خود تک مری رسائی نہیں ہو رہی ابھی
حیرت ہے اس طرف بھی نہیں ہوں جدھر میں ہوں
درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو
تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے
کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا
مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری
معذرت روندے ہوئے پھولوں سے کر لوں تو چلوں
منتظر شہر میں تاخیر سے آیا ہوا میں
میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر
ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے