Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

اطہر نادر

1928 | پاکستان

اطہر نادر کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

دیکھو تو ہر اک رنگ سے ملتا ہے مرا رنگ

سوچو تو ہر اک بات ہے اوروں سے جدا بھی

رات آنگن میں چاند اترا تھا

تم ملے تھے کہ خواب دیکھا تھا

غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی

زخم بھر جانے کا امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا

ہو گئی شام ڈھل گیا سورج

دن کو شب میں بدل گیا سورج

لوگ قسمت پہ چھوڑ دیتے ہیں

بات بنتی نہیں ہے جب کچھ بھی

اب آ بھی جاؤ کہ اک دوسرے میں گم ہو جائیں

وصال و ہجر کا قصہ بہت پرانا ہوا

کوئی نہیں ہے ایسا کہ اپنا کہیں جسے

کیسا طلسم ٹوٹا ہے اپنے گمان کا

لوگ کیا سادہ ہیں امید وفا رکھتے ہیں

جیسے معلوم نہیں ان کو حقیقت تیری

تو ہر اک کا ہے اور کسی کا نہیں

لوگ کہتے رہیں ہمارا چاند

یہ انقلاب زمانہ نہیں تو پھر کیا ہے

امیر شہر جو کل تھا وہ ہے فقیروں میں

سکون قلب تو کیا ہے قرار جاں بھی لٹا

تمہاری یاد بھی آئی تو راہزن کی طرح

جو دیکھتا ہوں زمانے کی نا شناسی کو

یہ سوچتا ہوں کہ اچھا تھا بے ہنر رہتا

تجھ سے بچھڑ کے ہم تو یہی سوچتے رہے

یہ گردش حیات نہ آئے گی راس کیا

کس درجہ مرے شہر کی دل کش ہے فضا بھی

مانوس ہر اک چیز ہے مٹی بھی ہوا بھی

یہ اپنا اپنا مقدر ہے اس کو کیا کہئے

تجھے سراب تو دریا بنا دیا ہے مجھے

آدمی کا عمل سے رشتہ ہے

کام آتا نہیں نسب کچھ بھی

جب بھی ملتا ہے مسکراتا ہے

خواہ اس کا ہو اب سبب کچھ بھی

کوئی ملے نہ ملے بیقرار رہتا ہے

کہ دل کا حال بھی اک موج آب جیسا ہے

کٹا نہ کوہ الم ہم سے کوہ کن کی طرح

بدل سکا نہ زمانہ ترے چلن کی طرح

جو دیکھیے تو زمانہ ہے تیز رو کتنا

طلوع صبح ابھی ہے تو وقت شام ابھی

دل نے گو لاکھ یہ چاہا کہ بھلا دوں تجھ کو

یاد نے تیری مگر آج بھی مارا شب خوں

وہ عشق جس کی زمانے کو بھی خبر نہ رہی

ترے بچھڑنے سے رسوا نگر نگر میں رہا

Recitation

بولیے