Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Idris Babar's Photo'

ادریس بابر

1973 | پاکستان

پاکستان کے نوجوان شاعر

پاکستان کے نوجوان شاعر

ادریس بابر کے اشعار

7.4K
Favorite

باعتبار

خودکشی بھی نہیں مرے بس میں

لوگ بس یوں ہی مجھ سے ڈرتے ہیں

کہانیوں نے مری عادتیں بگاڑی تھیں

میں صرف سچ کو ظفر یاب دیکھ سکتا تھا

وہ بہت دور ہے مگر مرے پاس

ایک ہی سمت کا کرایا ہے

آج تو جیسے دن کے ساتھ دل بھی غروب ہو گیا

شام کی چائے بھی گئی موت کے ڈر کے ساتھ ساتھ

موت اکتا چکی ریہرسل میں

روز دو چار شخص مرتے ہیں

ٹوٹ سکتا ہے چھلک سکتا ہے چھن سکتا ہے

اتنا سوچے تو کوئی جام اچھالے کیسے

وہی خواب ہے وہی باغ ہے وہی وقت ہے

مگر اس میں اس کے بغیر جی نہیں لگ رہا

ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا

اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا

اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا مرے دوست

تو مجھے ایسے ہوا جیسے کرونا مرے دوست

یہ کرن کہیں مرے دل میں آگ لگا نہ دے

یہ معائنہ مجھے سرسری نہیں لگ رہا

مر گیا خاص طور پر میں بھی

جس طرح عام لوگ مرتے ہیں

میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں مگر اے دوست

میں چاہتا ہوں کہ وہ خواب پھر بہم کئے جائیں

ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں

بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے

پچاس میل ہے خشکی سے بحریہ ٹاؤن

بس ایک گھنٹے میں اچھا زمانہ آتا ہے

بریک ڈانس سکھایا ہے ناؤ نے دل کو

ہوا کا گیت سمندر کو گانا آتا ہے

اس اندھیرے میں جب کوئی بھی نہ تھا

مجھ سے گم ہو گیا خدا مجھ میں

وہ مجھے دیکھ کر خموش رہا

اور اک شور مچ گیا مجھ میں

یہاں سے چاروں طرف راستے نکلتے ہیں

ٹھہر ٹھہر کے ہم اس خواب سے نکلتے ہیں

کدھر گیا وہ کوزہ گر خبر نہیں

کوئی سراغ چاک سے نہیں ملا

تو بھی ہو میں بھی ہوں اک جگہ پہ اور وقت بھی ہو

اتنی گنجائشیں رکھتی نہیں دنیا مرے دوست!

کام کی بات پوچھتے کیا ہو

کچھ ہوا کچھ نہیں ہوا یعنی

اک دیا دل کی روشنی کا سفیر

ہو میسر تو رات بھی دن ہے

اس قدر مت اداس ہو جیسے

یہ محبت کا آخری دن ہے

دھول اڑتی ہے تو یاد آتا ہے کچھ

ملتا جلتا تھا لبادہ میرا

تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے اور

ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا تھا

اک خوف زدہ سا شخص گھر تک

پہنچا کئی راستوں میں بٹ کر

درد کا دل کا شام کا بزم کا مے کا جام کا

رنگ بدل بدل گیا ایک نظر کے ساتھ ساتھ

پر نہیں ہوتے خیالوں کے تو پھر

کیسے اڑتے ہیں غبارا سمجھو

پھول ہے جو کتاب میں اصل ہے کہ خواب ہے

اس نے اس اضطراب میں کچھ نہ پڑھا لکھا تو پھر

ریگ دل میں کئی نادیدہ پرندے بھی ہیں دفن

سوچتے ہوں گے کہ دریا کی زیارت کر جائیں

دل کی اک ایک خرابی کا سبب جانتے ہیں

پھر بھی ممکن ہے کہ ہم تم سے مروت کر جائیں

مرے سوال وہی ٹوٹ پھوٹ کی زد میں

جواب ان کے وہی ہیں بنے بنائے ہوئے

آنکھوں میں اترتے ہوئے اترائیں ستارے

سورج ہوں تو جل کر تری پیشانی سے مر جائیں

وہ جن کو میسر تھی ہر اک چیز دگر بھی

ممکن ہے سہولت کی فراوانی سے مر جائیں

وہی نہ ہو کہ یہ سب لوگ سانس لینے لگیں

امیر شہر کوئی اور خوف طاری کر

کوئی بھی دل میں ذرا جم کے خاک اڑاتا تو

ہزار گوہر نایاب دیکھ سکتا تھا

ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت

پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے

موت کی پہلی علامت صاحب

یہی احساس کا مر جانا ہے

ہاں اے غبار آشنا میں بھی تھا ہم سفر ترا

پی گئیں منزلیں تجھے کھا گئے راستے مجھے

میں جنہیں یاد ہوں اب تک یہی کہتے ہوں گے

شاہزادہ کبھی ناکام نہیں آ سکتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے