اسماعیل میرٹھی کے اشعار
بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا
واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
ہاں دل بے تاب چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے
-
موضوع : امن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وطیرے صبا کے ہیں
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
سب کچھ تو کیا ہم نے پہ کچھ بھی نہ کیا ہائے
حیران ہیں کیا جانیے کیا ہو نہیں سکتا
ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہی کاروبار ہوتا
کیا ہے وہ جان مجسم جس کے شوق دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں
صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے
آگرہ کیا اور الہ آباد کیا
-
موضوع : آگرہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے