جمیل الدین عالی کے دوہے
ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات
یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات
اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
عالؔی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار
نیند کو روکنا مشکل تھا پر جاگ کے کاٹی رات
سوتے میں آ جاتے وہ تو نیچی ہوتی بات
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے
نا کوئی اس سے بھاگ سکے اور نا کوئی اس کو پائے
آپ ہی گھاؤ لگائے سمے اور آپ ہی بھرنے آئے
دریا دریا گھومے مانجھی پیٹ کی آگ بجھانے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کس کس کو پہچانے
پہلے کبھی نہیں گزری تھی جو گزری اس شام
سب کچھ بھول چکے تھے لیکن یاد رہا اک نام
برقع پوش پٹھانی جس کی لاج میں سو سو روپ
کھل کے نہ دیکھی پھر بھی دیکھی ہم نے چھاؤں میں دھوپ
بابو گیری کرتے ہو گئے عالؔی کو دو سال
مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال
روز اک محفل اور ہر محفل ناریوں سے بھرپور
پاس بھی ہوں تو جان کے بیٹھیں عالؔی سب سے دور
شہر میں چرچا عام ہوا ہے ساتھ تھے ہم اک شام
مجھے بھی جانیں تجھے بھی جانیں لوگ کریں بد نام
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالؔی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار
کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گئے سب یار
سورؔ کبیرؔ بہاریؔ میراؔ ؔرحمنؔ تلسیؔ داس
سب کی سیوا کی پر عالؔی گئی نہ من کی پیاس
کچے محل کی رانی آئی رات ہمارے پاس
ہونٹ پہ لاکھا گال پہ لالی آنکھیں بہت اداس
ایک بدیسی نار کی موہنی صورت ہم کو بھائی
اور وہ پہلی نار تھی بھیا جو نکلی ہرجائی