aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "جوان"
جون ایلیا
1931 - 2002
شاعر
جواد شیخ
born.1985
لالہ مادھو رام جوہر
1810 - 1889
مولانا محمد علی جوہر
1878 - 1931
مظہر مرزا جان جاناں
1699 - 1781
حیرت الہ آبادی
1835 - 1892
علی جواد زیدی
1916 - 2004
عیش دہلوی
1779 - 1874
نادر شاہجہاں پوری
1890 - 1963
سید جون عباس کاظمی
born.2001
مرزا جواں بخت جہاں دار
1749 - 1788
جیم جاذل
born.1973
شاد لکھنوی
1805 - 1899
میر یار علی جان
1812 - 1879
حکیم آغا جان عیش
تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتامری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتاایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا، ’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا، ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے...
خیال زہد ابھی کہاںابھی تو میں جوان ہوں
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ۔۔۔ آگ۔۔۔ بھاگم بھاگ۔۔۔ اسٹیشن۔۔۔ گولیاں۔۔۔ رات اور سکینہ۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں ک...
مقبول رومانی شاعر ، ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ’ ابھی تو میں جوان ہوں‘ کو گا کر شہرت دی ، پاکستان کا قومی ترانہ لکھا
پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور
دوستی کا جذبہ ایک بہت پاک اور شفاف جذبہ ہے ۔ اس سے انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کو جاننے ، سمجھنے اور ایک دوسرے کیلئے جینے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ شاعروں نے اس اہم انسانی جذبے اور رشتے کو بہت پھیلاؤ کے ساتھ موضوع بنایا ہے ۔ دوستی پر کی جانے والی اس شاعری کے اور بھی کئی ڈائمینشن ہیں ۔ دوستی کب اور کن صورتوں میں دشمنی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے ؟ ہم سب اگرچہ اپنی عام زندگی میں ان حالتوں سے گزرتے ہیں لیکن شعوری طور پر نہ انہیں جان پاتے ہیں اور نہ سمجھ پاتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور ان انجانی صورتوں سے واقفیت حاصل کیجئے ۔
जवानجوان
youthful, young
तरुण, युवा, नौजवान, वयस्क, व्यवहार प्राप्त, बालिग़, रूपवान्, सजीला।
یعنی
مجموعہ
گویا
گمان
لیکن
جون ایلیا-خوش گزراں گزر گئے
نسیم سید
مقالات/مضامین
امراؤ جان ادا
مرزا ہادی رسوا
معاشرتی
شاید
زخم امید
غزل
ڈاکٹر علامہ اقبال کے شکوہ، جواب شکوہ کی نثری ترجمانی
علامہ اقبال
شاعری تنقید
راموز
نظم
جون ایلیا حیات اور شاعری
نیہااقبال
تنقید
شکوہ جواب شکوہ
آئینۂ بحور
منی لال جوان سندیلوی
اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدراہٹ، وہی جاذبیت، وہی طراوت، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ تازہ کچےبرتنوں میں ہوتی ہے۔ مٹمیلے رنگ کی ان جوان چھاتیوں میں جو بالکل بے داغ تھیں، ایک عجیب قسم کی چمک محلول تھی، سیاہی مائل گندمی رنگ کے نیچےدھندلی روشنی کی ایک تہہ سی تھی جس نے ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر چھاتیوں کے یہ ابھاریہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے ہوں۔
جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچلمچل رہا ہے کسی خواب مرمریں کی طرح
جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہےنظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سےہم نے وہ زندگی گزاری ہے
چاند نے یہ سب کچھ اس کی حیران پتلیوں سے جھانک کے دیکھا پھر یکایک کہیں کسی پیڑ پر ایک بلبل نغمہ سرا ہو اٹھی اور کشتیوں میں چراغ جھلملانے لگے اور تنگوں سے پرے بستی میں گیتوں کی مدھم صدا بلند ہوئی۔ گیت اور بچوں کے قہقہے اور مردوں کی بھاری آوازیں اور ننھے بچوں کے رونے کی میٹھی صدائیں اور چھتوں سے زندگی کا آہستہ آہستہ سلگتا ہوا دھواں اور شام کے کھانے کی...
’’اے ہے بی، گھاس تو نہیں کھا گئی ہو، کنیز فاطمہ کی ساس نے سن لیا تو ناک چوٹی کاٹ کر ہتھیلی پر رکھ دیں گی۔ جوان بیٹے کی میت اٹھتے ہی وہ بہو کے گرد کنڈل ڈال کر بیٹھ گئیں۔ وہ دن اور آج کا دن دہلیز سے قدم نہ اتارنے دیا۔ نگوڑی کا میکے میں کوئی مرا جیتا ہوتا تو شاید کبھی آنا جانا ہو جاتا۔‘‘’’اور بھئی شجن بھیا کو کیا کنواری نہیں ملے گی جو جھوٹ پتل چاٹیں گے۔ لوگ بیٹیاں تھال میں سجا کے دینے کو تیار ہیں۔ چالیس کےتو لگتے بھی نہیں‘‘، اصغری خانم بولیں۔
رب نواز سوچتا تھا کہ یہی حال ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ان سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا یہاں آکر انھیں اور توکچھ نہیں ملا۔ البتہ بندوقیں مل گئی ہیں۔ اسی وزن کی، اسی شکل کی، اسی مار کی اور چھاپ کی۔پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑتے تھے جن کو انھوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کرلیا تھا۔ اب وہ خود دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے۔ رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑبڑ سی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔۔۔ پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے؟ اگر انھیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدرآباد اور جونا گڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں انھیں لڑنے کے لیے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں وہ اس میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کےوہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
دل ابھی تک جوان ہے پیارےکس مصیبت میں جان ہے پیارے
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہمبچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books