- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
پریم چند کے افسانے
جگنو کی چمک
شیرِ پنجاب کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور اراکینِ سلطنت باہمی نفاق و عناد کے ہاتھوں مرمٹے تھے۔رنجیت سنگھ کی بنائی ہوئی شاندار مگرکھوکھلی عمارت پامال ہوگئی تھی۔کنور دلیپ سنگھ انگلستان میں تھے اور رانی چندر کنور چنار کے قلعہ میں۔ چندر کنورنے گرتی ہوئی
قربانی
انسان کی حیثیت کا سب سے زیادہ اثر غالباً اس کے نام پر پڑتا ہے، منگرو ٹھاکر جب سے کانسٹبل ہوگئے ہیں، ان کا نام منگل سنگھ ہوگیا ہے۔ اب انھیں کوئی منگرو کہنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کلو اہیر نے جب سے تھانہ دار صاحب سے دوستی کی ہے اور گاؤں کا مکھیا ہوگیا ہے۔
بانکا زمیندار
ٹھاکرپردمن سنگھ ایک ممتازوکیل تھے اوراپنے حوصلہ ہمت کےلئے سارے شہرمیں مشہور، ان کے اکثراحباب کہا کرتے کہ اجلاس عدالت میں ان کے یہ مردانہ کمالات زیادہ نمایاں طورپر ظاہرہوا کرتے ہیں۔ اسی کی برکت تھی کہ باوجود اس کے کہ انہیں شاذ ہی کسی معاملہ میں سرخروئی
ریاست کا دیوان
مسٹر مہتہ ان بد نصیبوں میں سے تھے جو اپنے آقا کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ وہ دل سے اپنا کام کرتے تھے بڑی یکسوئی اور ذمہ داری کے ساتھ اور یہ بھول جاتے تھے کہ وہ کام کے تونوکر ہیں ہی اپنے آقا کے نوکر بھی ہیں۔ جب ان کے دوسرے بھائی دربار میں بیٹھے خوش گپیاں کرتے
بوڑھی کاکی
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِثانی ہواکرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ۔ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی
بند دروازہ
آفتاب افق کی گود سے نکلا۔ بچّہ پالنے سے وہی ملاحت، وہی سرخی، وہی خمار، وہی ضیا۔ میں برآمدہ میں بیٹھا تھا۔ بچّے نے دروازے سے جھانکا میں نے مسکراکر پکارا۔ وہ میری گود میں آکر بیٹھ گیا۔ اس کی شرارتیں شروع ہوگئیں۔ کبھی قلم پر ہاتھ بڑھایا۔ کبھی کاغذ پر
آلھا
آلھاکانام کس نے نہ سناہوگا۔ زمانہ قدیم کے چندیل راجپوتوں میں شجاعت، اور سرفروشانہ اطاعت گزاری کے لئے کسی راجہ مہاراجہ کوبھی یہ شہرتِ دوام حاصل نہیں ہے۔ راجپوتوں کے قانونِ اخلاق میں صرف شجاعت ہی نہیں داخل تھی، بلکہ اپنے آقا اوراپنے راجہ کے لئے اپنی
پوس کی رات
(۱) ہلکو نے آ کر اپنی بیوی سے کہا، ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دیدو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘ منی بہو جھاڑو لگا رہی تھی۔ پیچھے پھر کر بولی، ’’تین ہی تو روپے ہیں دیدوں، تو کمبل کہاں سے آئے گا۔ ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی۔
اناتھ لڑکی
سیٹھ پرشوتم داس پونا کے سرسوتی پاٹ شالہ کامعائنہ کرنے کے بعد جب باہر نکلے تب ایک لڑکی نے دوڑکر ان کادامن پکڑلیا۔ سیٹھ جی رک گئے اور محبت سے اس کی طرف دیکھ کرپوچھا، ’’تمہارا کیا نام ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’روہنی۔‘‘ سیٹھ جی نے اسے گود میں اٹھالیا
شکوہ شکایت
زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا، مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک، خوش خلق، فیاض اور بیدار مغز ہوں گے۔ لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزہ آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے
پچھتاوا
پنڈت درگاناتھ جب کالج سے نکلے تو کسبِ معاش کی فکر دامنگیرہوئی۔ رحم دل اوربااصول آدمی تھے۔ ارادہ تھا کہ کام ایسا کرناچاہئے جس میں اپنی گزران بھی ہو اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور دلسوزی کا بھی موقع ملے۔ سوچنے لگے اگرکسی دفتر میں کلرک بن جاؤں تو اپنی گزر
روشنی
آئی.سی.ایس پاس کر کے ہندوستان آیا تو مجھے ممالک متحدہ کے ایک کو ہستانی علاقے میں ایک سب ڈویژن کا چارج ملا۔ مجھے شکار کا بہت شوق تھا اور کوہستانی علاقے میں شکار کی کیا کمی۔ میری دلی مراد بر آئی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں میرا بنگلہ تھا۔ بنگلے ہی پر کچہری
اگنی سمادھی
سادھوسنتو ں کی صحبت میں برے بھی اچھے ہوجاتے ہیں مگر پیاگ کی بدنصیبی تھی کہ اس پراس کا الٹا اثرہوا۔ اسے گانجا چرس اوربھنگ کی چاٹ پڑگئی جس کا نتیجہ ہوا کہ ایک محنتی اور ذہین نوجوان کاہلی کا شکاربن گیا۔ دوڑدھوپ اورجدوجہد کی زندگی میں یہ مزہ کہاں۔۔۔ کسی
تریا چرتر
سیٹھ لگن داس جی کا نخلِ حیات بے ثمرتھا۔ کوئی ایسی انسانی روحانی یاطبی کوشش نہ تھی جوانہوں نے نہ کی ہو۔ یوں شادی میں مسئلہ توحید کے قائل تھے۔ مگرضرورت اوراصرار سے مجبورہوکر ایک دونہیں پانچ شادیاں کیں۔ یہاں تک کہ عمرِعزیزکے چالیس سال گزرگئے اورخانہ تاریک
حق کی فکر
ٹامی یوں دیکھنے میں توبہت تگڑاتھا۔ بھونکتاتو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھاکہ اندھیری رات میں اس پرگدھے کاشبہ ہوتا لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔ دوچار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت
معافی
مسلمانوں کو اسپین پر حکومت کرتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ کلیساؤں کی جگہ مسجدوں نے لے لی تھی۔ گھنٹوں کی بجائے اذان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ غرناطہ اور الحمرا میں وقت کی چال پر ہنسنے والے وہ قصر تعمیر ہوچکے تھے، جن کے کھنڈرات اب تک دیکھنے والوں کو اپنی گزشتہ
نمک کا داروغہ
(۱) جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کردی گئی تو لوگ دروازہ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔ چاروں طرف خیانت، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر
آتما رام
بیدی گاؤں کا مہادیوسنار ایک مشہور آدمی تھا۔ وہ اپنے سائبان میں صبح سے لے کر شام تک انگیٹھی کے سامنے بیٹھا کھٹ کھٹ کرتاتھا۔ یہ لگاتار آواز سننے کے لوگ اتنے عادی ہوگئے تھے کہ جب کسی وجہ سے وہ بندہوجاتی توایسا لگتا تھا جیسے کوئی چیز غائب ہوگئی ہو۔ وہ
بیٹی کا دھن
بیتوا ندی دو اونچے کراروں کے بیچ میں اس طرح منہ چھپائے ہوئے تھی جیسے بعض دلوں میں ارادۂ کمزور اور تن پروری کے بیچ میں ہمت کی مدھم لہریں چھپی رہتی ہیں۔ ایک کرارپر ایک چھوٹا سا گاؤں آبادہے جس کے شاندار کھنڈروں نے اسے ایک خاص شہرت دے رکھی ہے۔ قومی کارناموں
سمر یاترا
آج صبح ہی سے گاؤں میں ہل چل مچی ہوئی تھی۔ کچی جھونپڑیاں ہنستی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ آج ستیہ گرہ کرنے والوں کا جتھا گاؤں میں آئے گا۔ کودئی چودھری کے دروازے پر شامیانہ لگا ہوا ہے۔ آٹا، گھی، ترکاری، دودھ اور دہی جمع کیا جارہا ہے۔ سب کے چہرے پر امنگ
مہا تیرتھ
منشی اندرمنی کی آمدنی کم تھی۔ اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچے کے لئے دایہ رکھنے کا بار نہ اٹھاسکتے تھے۔ لیکن ایک تو بچے کی مناسب پرورش کی فکر۔ دوسرے برابر والو ں سے کمتر معلوم ہونے کا خدشہ انہیں دایہ رکھنے پر مجبور کررہا تھا۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر وقت
اندھیر
ناگ پنچمی آئی، ساٹھے کے زندہ دل نوجوانوں نے خوش رنگ جانگھیے بنوائے اکھاڑے میں ڈھول کی مرد انہ صدائیں بلند ہوئیں قرب و جوار کے زور آزما اکھٹے ہوئے اور اکھاڑے پر تمبولیوں نے اپنی دکانیں سجائیں کیوں کی آج زور آزمائی اور دوستانہ مقابلے کا دن ہے عورتوں نے
پنساری کا کنواں
بسترِ مرگ پر پڑی گومتی نے چودھری ونایک سنگھ سے کہا، ’’چودھری میری زندگی کی یہی لالسا تھی۔‘‘ چودھری نے سنجیدہ ہوکر کہا، ’’اس کی کچھ چنتا نہ کرو کاکی۔ تمھاری لالسا بھگوان پوری کریں گے۔ میں آج ہی سے مزدوروں کو بلا کر کام پر لگائے دیتا ہوں۔ دیو نے چاہا تو
غیرت کی کٹار
کتنا افسوسناک، کتنا پردرد سانحہ ہے کہ وہی نازنین جو کبھی ہمارے گوشۂ جگر میں بستی تھی، اسی کے گوشۂ جگر میں چبھنے کے لیے ہمارا خنجر آبدار بیقرار ہورہا ہو۔ جس کی آنکھیں ہمارے لئے آبِ حیات کے چھلکتے ہوئے ساغر تھیں، وہی آنکھیں ہمارے دل میں شعلہ اور
کفن
(۱) جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی
آہ بیکس
منشی رام سیوک بھوئیں چڑھائے ہوئے گھر سے نکلے اور بولے، ’’ایسی زندگی سے تو موت بہتر۔‘‘ موت کی دست درازیوں کا سارا زمانہ شاکی ہے۔ اگر انسان کا بس چلتا تو موت کا وجودہی نہ رہتا، مگر فی الواقع موت کو جتنی دعوتیں دی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کی فرصت ہی
طلوع محبت
بھوند و پسینہ میں شرابور لکڑیوں کا ایک گٹھا سر پر لیے آیا اور اسے پٹک کر بنٹی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ گویا زبانِ حال سے پوچھ رہا تھا، ’’کیا ابھی تک تیرا مزاج درست نہیں ہوا؟‘‘ شام ہوگئی تھی پھر بھی لو چلتی تھی اور آسمان پر گردو غبار چھایا ہوا تھا۔ ساری
دنیا کا سب سے انمول رتن
دلفگار ایک پر خار درخت کے نیچے دامن چاک بیٹھا ہوا خون کے آنسو بہا رہا تھا۔ وہ حسن کی دیوی یعنی ملکۂ دلفریب کا سچا اور جانباز عاشق تھا۔ ان عشاق میں نہیں جو عطر پھلیل میں بس کر اور لباس فاخرہ میں سج کر عاشق کے بھیس میں معشوقیت کا دم بھرتے ہیں، بلکہ ان
منتر
شام کا وقت تھا۔ ڈاکٹر چڈھا گولف کھیلنے کے لئے تیار ہورہے تھے۔ موٹر دروازہ کے سامنے کھڑی تھی۔ کہ دو کہار ڈولی اٹھائے آتے دکھائی دیے۔ عقب میں ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا آرہا تھا۔ ڈولی مطب کے سامنے آکر رک گئی۔ بوڑھے نے دھیرے دھیرے آکر دروازہ پر پڑی ہوئی
روٹھی رانی
(اُمادے بھٹانی) شادی کی تیاری ہندوستان میں بہت سی رانیاں گزری ہیں، جنہوں نے کسی نہ کسی بات میں شہرت حاصل کی ہے۔ کوئی اپنے حسن وجمال کے لئے، کوئی اپنے انتظامی قابلیت کے لئے، کوئی اپنی مردانہ ہمت کے لئے، کوئی اپنی عصمت کے لئے ہمیشہ یادرہے گی، مگراُمادے
شطرنج کی بازی
(۱) نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے۔کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔ امور سیاست
نوک جھونک
بیوی میں درحقیقت بد نصیب ہوں ورنہ کیوں مجھے روز ایسے نفرت انگیز مناظر دیکھنے پڑتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ مجھے دیکھنے ہی نہیں پڑتے بلکہ بدنصیبی نے ان کو میری زندگی کا جزو خاص بنادیا ہے۔ میں اس عالی ظرف برہمن کی لڑکی ہوں جس کا احترام بڑی بڑی ہندو
یہ میری مادر وطن ہے!
آج پورے ساٹھ سال کے بعد مجھے اپنے وطن، پایرے وطن کا دیدار پھر نصیب ہوا۔ جس وقت میں اپنے پیارے دیس سے رخصت ہوا او رمجھے قسمت مغرب کی جانب لے چلی، اس وقت میں کڑیل جوان تھا۔ میری رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا اور یہ دل امنگوں اور بڑے بڑے ارادوں سے بھرا ہوا
سوا سیر گیہوں
کسی گاؤں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔ چھکّاپنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھو ت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جا نے کی فکر نہ تھی۔ ودّ یانہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا
نجات
(۱) دکھی چمار دروازے پر جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور اس کی بیوی جھریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارن نے کہا، ’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں۔‘‘ دکھی، ’’ہاں جاتا ہوں، لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں
پرائشچت
دفتر میں ذرا دیر سے آنا افسروں کی شان ہے۔ جتنا بڑا افسر ہوگا اتنی ہی دیر سے آئے اور اسی قدر جلد چلا جائے گا۔چپڑاسی کی حاضری چوبیس گھنٹوں کی۔ وہ چھٹی پر بھی نہیں جاسکتا۔ اس کا معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ خیر جب بریلی ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک بابو مداری لال
خنجر و وفا
جے گڈھ اور بجے گڈھ دو نہایت سر سبز مہذب، وسیع اور مستحکم سلطنتیں تھیں۔ دونوں ہی میں علم و ہنر کی گرم بازاری تھی۔ دونوں کا مذہب ایک، معاشرت ایک، رسم ورواج ایک، فلسفہ ایک، اصولِ ترقی ایک، معیار ِزندگی ایک اور زبان میں بھی برائے نام فرق تھا۔ جے گڈھی
راہ خدمت
تارا نے بارہ سال تک ڈرگا تپسیا کی۔ نہ پلنگ پر سوئی نہ سرمیں تیل ڈالا، نہ آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ زمین پر سوتی تھی، گیروے کپڑے پہنتے تھی اور روکھی روٹیاں کھاتی تھی۔ اس کا چہرہ مرجھائی ہوئی کلی تھی، آنکھیں بجھا ہوا چراغ، اور دل ایک بیہڑ میدان، سبزہ اور
ٹھاکر کا کنواں
جو کھونے لوٹا منھ سے لگایا تو پانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا، یہ کیسا پانی ہے؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلاسوکھا جارہا ہے اور تو سڑا ہوا پانی پلائے دیتی ہے۔ گنگی پرتی دن شام کو پانی بھرلیا کرتی تھی۔ کنواں دور تھا۔ بار بار جانا مشکل تھا۔ کل وہ
خون سفید
چیت کامہینہ تھا، لیکن وہ کھلیان جہاں اناج کے سنہرے انبار لگتے تھے، جان بلب مویشیوں کے آرام گاہ بنے ہوئے تھے۔ جن گھروں سے پھاگ اور بسنت کی الاپیں سنائی دیتی تھیں وہاں آج تقدیرکا رونا تھا۔ ساراچوماسہ گزرگیا پانی کی ایک بوند نہ گری۔ جیٹھ میں ایک بارموسلادھارمینہ
دو بہنیں
دو بہنیں دو سال بعد ایک تیسرے عزیز کے گھر ملیں۔ اور خوب رودھوکر خاموش ہوئیں۔ تو بڑی بہن روپ کماری نے دیکھا کہ چھوٹی بہن رام دلاری سرسے پاؤں تک گہنوں سے لدی ہوئی ہے۔ کچھ اس کا رنگ کھل گیا۔ مزاج میں کچھ تمکنت آگئی ہے اور بات چیت کرنے میں کچھ زیادہ مشاق
دو بیل
جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھاواقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ گائے شریف
لاٹری
جلدی سے مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خریدلیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھرہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔ مجھے بھی
گھاس والی
(۱) ملیا ہر ی ہری گھاس کا گٹھا لے کر لوٹی تو اس کا گیہواں رنگ کچھ سرخ ہوگیا تھا اور بڑی بڑی مخمور آنکھیں کچھ سہمی ہوئیں تھیں۔ مہابیر نے پوچھا، ’’کیا ہے ملیا؟ آج کیسا جی ہے۔‘‘ ملیا نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور منہ پھیر لیا۔ مہابیر
زیور کا ڈبہ
بی۔ اے پاس کرنے کے بعد چندر پرکاش کو ایک ٹیوشن کرنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی۔ اسی سال والد بھی چل بسے۔ اور پرکاش زندگی کے جو شیریں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ مٹی میں مل گئے۔ والد اعلٰی عہدے پر تھے۔ ان کی وساطت سے چندر پرکاش کوئی
راہ نجات
سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جوناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس
دودھ کی قیمت
اب بڑے بڑے شہروں میں دائیاں اور نرسیں بھی نظر آتی ہیں لیکن دیہاتوں میں ابھی تک زچّہ خانہ روش قدیم کی طرح بھنگنو ں کے ہی دائرہ اقتدار میں ہے اورایک عرصہ دراز تک اس میں اصلاح کی کوئی امید نہیں۔ بابو مہیش ناتھ اپنے گاؤں کے زمیندار ضرورتھے تعلیم یافتہ بھی
بے غرض محسن
ساون کا مہینہ تھا، ریوتی رانی نے پاؤں میں مہندی رچائی، مانگ چوٹی سنواری۔ اور تب اپنی بوڑھی ساس سے جاکر بولی، ’’امّاں جی آج میں میلہ دیکھنے جاؤں گی۔‘‘ ریوتی پنڈت چنتا من کی بیوی تھی۔ پنڈت جی نے سرسوتی کی پوجا میں زیادہ نفع نہ دیکھ کر لکشمی دیوی کی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-