Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Abdul Ahad Saaz's Photo'

عبد الاحد ساز

1950 - 2020 | ممبئی, انڈیا

ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول

ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول

عبد الاحد ساز کے اشعار

4.4K
Favorite

باعتبار

نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک

مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے

لا سے لا کا سفر تھا تو پھر کس لیے

ہر خم راہ سے جاں الجھتی رہی

اب آ کے قلم کے پہلو میں سو جاتی ہیں بے کیفی سے

مصرعوں کی شوخ حسینائیں سو بار جو روٹھتی منتی تھیں

آئی ہوا نہ راس جو سایوں کے شہر کی

ہم ذات کی قدیم گپھاؤں میں کھو گئے

دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا

دل جو گھبرائے سمندر کے کنارے جانا

بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی

وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے

مری رفیق نفس موت تیری عمر دراز

کہ زندگی کی تمنا ہے دل میں افزوں پھر

مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے

گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں

جن کو خود جا کے چھوڑ آئے قبروں میں ہم

ان سے رستے میں مڈبھیڑ ہوتی رہی

یادوں کے نقش گھل گئے تیزاب وقت میں

چہروں کے نام دل کی خلاؤں میں کھو گئے

شکست وعدہ کی محفل عجیب تھی تیری

مرا نہ ہونا تھا برپا ترے نہ آنے میں

شعلوں سے بے کار ڈراتے ہو ہم کو

گزرے ہیں ہم سرد جہنم زاروں سے

شعر اچھے بھی کہو سچ بھی کہو کم بھی کہو

درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو

جیتنے معرکۂ دل وہ لگاتار گیا

جس گھڑی فتح کا اعلان ہوا ہار گیا

میں بڑھتے بڑھتے کسی روز تجھ کو چھو لیتا

کہ گن کے رکھ دیئے تو نے مری مجال کے دن

گھر والے مجھے گھر پر دیکھ کے خوش ہیں اور وہ کیا جانیں

میں نے اپنا گھر اپنے مسکن سے الگ کر رکھا ہے

نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے

غم نہیں رابطۂ صبح جو کاذب ٹھہرے

داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد

شرط کچھ تو مرے بکنے کی مناسب ٹھہرے

پیاس بجھ جائے زمیں سبز ہو منظر دھل جائے

کام کیا کیا نہ ان آنکھوں کی تری آئے ہمیں

ہر قدم اس متبادل سے بھری دنیا میں

راس آئے تو بس اک تیری کمی آئے ہمیں

خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ

جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب

مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہو کیا ہے

عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے

یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے

سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا

ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا

شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی

حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا

بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے

سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا

بیاض پر سنبھل سکے نہ تجربے

پھسل پڑے بیان بن کے رہ گئے

بام و در کی روشنی پھر کیوں بلاتی ہے مجھے

میں نکل آیا تھا گھر سے اک شب تاریک میں

زمانوں کو ملا ہے سوز اظہار

وہ ساعت جب خموشی بول اٹھی ہے

زمانے سبز و سرخ و زرد گزرے

زمیں لیکن وہی خاکستری ہے

جیسے کوئی دائرہ تکمیل پر ہے

ان دنوں مجھ پر گزشتہ کا اثر ہے

خبر کے موڑ پہ سنگ نشاں تھی بے خبری

ٹھکانے آئے مرے ہوش یا ٹھکانے لگے

میں ایک ساعت بے خود میں چھو گیا تھا جسے

پھر اس کو لفظ تک آتے ہوئے زمانے لگے

بے مصرف بے حاصل دکھ

جینے کے نا قابل دکھ

نظر کی موت اک تازہ المیہ

اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے

برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا

مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں

وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر؟

کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں

مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے

جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں

نظر تو آتے ہیں کمروں میں چلتے پھرتے مگر

یہ گھر کے لوگ نہ جانے کہاں گئے ہوئے ہیں

پس منظر میں 'فیڈ' ہوئے جاتے ہیں انسانی کردار

فوکس میں رفتہ رفتہ شیطان ابھرتا آتا ہے

رات ہے لوگ گھر میں بیٹھے ہیں

دفتر آلودہ و دکان زدہ

خرد کی رہ جو چلا میں تو دل نے مجھ سے کہا

عزیز من ''بہ سلامت روی و باز آئی''

میں ترے حسن کو رعنائی معنی دے دوں

تو کسی شب مرے انداز بیاں میں آنا

تم اپنے ٹھور ٹھکانوں کو یاد رکھو سازؔ

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو کہیں بھی رہتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے