aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ameer Qazalbash's Photo'

امیر قزلباش

1943 - 2003 | دلی, انڈیا

مقبول اردو شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ پریم روگ اور رام تیری گنگا میلی کے گیتوں کے لئے مشہور

مقبول اردو شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ پریم روگ اور رام تیری گنگا میلی کے گیتوں کے لئے مشہور

امیر قزلباش کے اشعار

25.4K
Favorite

باعتبار

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں

میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے

اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے

تیر ہر شخص کی کمان میں ہے

اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی

خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی

یکم جنوری ہے نیا سال ہے

دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف

ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح

ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح

تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو تو گئے ہو

کس کس کو بتاؤگے کہ گھر کیوں نہیں جاتے

وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آساں تھا

مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری

ہر قدم پہ ناکامی ہر قدم پہ محرومی

غالباً کوئی دشمن دوستوں میں شامل ہے

سنا ہے اب بھی مرے ہاتھ کی لکیروں میں

نجومیوں کو مقدر دکھائی دیتا ہے

مرے پڑوس میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں

جو مجھ میں ڈھونڈ رہے ہیں برائیاں اپنی

مجھ سے بچ بچ کے چلی ہے دنیا

میرے نزدیک خدا ہو جیسے

زندگی اور ہیں کتنے ترے چہرے یہ بتا

تجھ سے اک عمر کی حالانکہ شناسائی ہے

آئنے سے نظر چراتے ہیں

جب سے اپنا جواب دیکھا ہے

یار کیا زندگی ہے سورج کی

صبح سے شام تک جلا کرنا

کیا گزرتی ہے مرے بعد اس پر

آج میں اس سے بچھڑ کر دیکھوں

سکوت شب میں در دل پہ ایک دستک تھی

بکھر گئی تری یادوں کی کہکشاں مجھ سے

قتل ہو تو میرا سا موت ہو تو میری سی

میرے سوگواروں میں آج میرا قاتل ہے

صبح تک میں سوچتا ہوں شام سے

جی رہا ہے کون میرے نام سے

مرے گھر میں تو کوئی بھی نہیں ہے

خدا جانے میں کس سے ڈر رہا ہوں

میں نے کیوں ترک تعلق کی جسارت کی ہے

تم اگر غور کرو گے تو پشیماں ہوگے

میں کیا جانوں گھروں کا حال کیا ہے

میں ساری زندگی باہر رہا ہوں

اتنا بیداریوں سے کام نہ لو

دوستو خواب بھی ضروری ہے

نہ جانے کیسا مسیحا تھا چاہتا کیا تھا

تمام شہر کو بیمار دیکھ کر خوش تھا

کچھ تو اپنی خبر ملے مجھ کو

میرے بارے میں کچھ کہا کرنا

جہاں جہاں بھی ہے نہر فرات کا امکاں

وہیں یزید کا لشکر دکھائی دیتا ہے

ذرا بدلوں گا اس بے منظری کو

پھر اس کے بعد مر جاؤں گا میں بھی

پوچھا ہے غیر سے مرے حال تباہ کو

اظہار دوستی بھی کیا دشمنی کے ساتھ

ایک خبر ہے تیرے لیے

دل پر پتھر بھاری رکھ

اپنے ہم راہ خود چلا کرنا

کون آئے گا مت رکا کرنا

مضطرب ہیں موجیں کیوں اٹھ رہے ہیں طوفاں کیوں

کیا کسی سفینے کو آرزوئے ساحل ہے

ہونا پڑا ہے خوگر غم بھی خوشی کی خیر

وہ مجھ پہ مہرباں ہیں مگر بے رخی کے ساتھ

ادا ہوا ہے جو اک لفظ بے اساس نہ ہو

مرا خدا کہیں میری طرح اداس نہ ہو

میرے اس کے درمیاں حائل کئی کہسار ہیں

مجھ تک آتے آتے بادل تشنہ لب ہو جائے گا

زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ تھا

رہ گیا وہ صرف دو اک گام سے

اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے

تیر کم رہ گئے کمانوں میں

کہیں صلیب کہیں کربلا نظر آئے

جدھر نگاہ اٹھے زخم سا نظر آئے

خالی ہاتھ نکل گھر سے

زاد سفر ہشیاری رکھ

جشن بہار نو ہے نشیمن کی خیر ہو

اٹھا ہے کیوں چمن میں دھواں روشنی کے ساتھ

میں دور تھا تو اپنے ہی چہرہ پہ مل لیا

اس زندگی کے ہاتھ میں جتنا گلال تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے