Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asad Badayuni's Photo'

اسعد بدایونی

1952 - 2003 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

اسعد بدایونی کے اشعار

13.1K
Favorite

باعتبار

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

محبتیں بھی اسی آدمی کا حصہ تھیں

مگر یہ بات پرانے زمانے والی ہے

یہاں نہ پیٹ ہی اس شاعری سے بھرتا ہے

یہاں نہ قوم ہی لوح و قلم سے جاگتی ہے

شاخ سے ٹوٹ کے پتے نے یہ دل میں سوچا

کون اس طرح بھلا مائل ہجرت ہوگا

پرانے گھر کی شکستہ چھتوں سے اکتا کر

نئے مکان کا نقشہ بناتا رہتا ہوں

سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں

ترا فسانہ تجھی کو سناتا رہتا ہوں

پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں

کہ بستیوں کا مقدر بدلتا جاتا ہے

ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں

ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے

بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے

یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے

جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر

مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی

ہوا کے اپنے علاقے ہوس کے اپنے مقام

یہ کب کسی کو ظفر یاب دیکھ سکتے ہیں

چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں

بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی

جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ

ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا

وہ ساری باتیں میں احباب ہی سے کہتا ہوں

مجھے حریف کو جو کچھ سنانا ہوتا ہے

وہاں بھی مجھ کو خدا سر بلند رکھتا ہے

جہاں سروں کو جھکائے زمانہ ہوتا ہے

چشم انکار میں اقرار بھی ہو سکتا تھا

چھیڑنے کو مجھے پھر میری انا پوچھتی ہے

مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن

میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا

کوئی ہم دم نہیں دنیا میں لیکن

جسے دیکھو وہی ہم دم لگے ہے

غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے

ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر

تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے

تکلفات کی نظموں کا سلسلہ ہے سوا

تعلقات اب افسانے ہونا چاہتے ہیں

سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں

عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں

دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم

چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت

بہت سے لوگوں کو میں بھی غلط سمجھتا ہوں

بہت سے لوگ مجھے بھی برا بتاتے ہیں

پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز

کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ

لیتا نہیں کسی کا پس مرگ کوئی نام

دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ

جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا

میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا

جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال

جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے

گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا

یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں

یہ طائروں کی قطاریں کدھر کو جاتی ہیں

نہ کوئی دام بچھا ہے کہیں نہ دانہ ہے

پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں

کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے