اشفاق حسین کے شعر
جو خواب کی دہلیز تلک بھی نہیں آیا
آج اس سے ملاقات کی صورت نکل آئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ
میں بھی تیرا ہوں مجھے بھی تو کہیں رہنا ہے
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے
کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تو میں بھی ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وہ ہو نہ سکا اپنا تو ہم ہو گئے اس کے
اس شخص کی مرضی ہی میں ڈھالے ہوئے ہم ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دن بھر کے جھمیلوں سے بچا لایا تھا خود کو
شام آتے ہی اشفاقؔ میں ٹوٹا ہوا کیوں ہوں
میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی
قدم قدم پہ وہ دریا پکارتا تھا مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
لفظوں میں ہر اک رنج سمونے کا قرینہ
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے ملا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر
یہ کار عشق ہے اس میں لگا تو میں بھی ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش
سو یہ خواہش بھی اب نیلام کرنے کے لیے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کام جو عمر رواں کا ہے اسے کرنے دے
میری آنکھوں میں سدا تجھ کو حسیں رہنا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے
اور اس سے بچھڑ جانے کا امکان ہے یوں بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دل میں سو تیر ترازو ہوئے تب جا کے کھلا
اس قدر سہل نہ تھا جاں سے گزرنا میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کون ہیں وہ جنہیں آفاق کی وسعت کم ہے
یہ سمندر نہ یہ دریا، نہ یہ صحرا میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے