عزم بہزاد کے شعر
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
روشنی ڈھونڈ کے لانا کوئی مشکل تو نہ تھا
لیکن اس دوڑ میں ہر شخص کو جلتے دیکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
عجب محفل ہے سب اک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
دریا پار اترنے والے یہ بھی جان نہیں پائے
کسے کنارے پر لے ڈوبا پار اتر جانے کا غم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا
-
موضوع : عاجزی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سوال کرنے کے حوصلے سے جواب دینے کے فیصلے تک
جو وقفۂ صبر آ گیا تھا اسی کی لذت میں آ بسا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کوئی آسان رفاقت نہیں لکھی میں نے
قرب کو جب بھی لکھا جذب رقابت لکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اے خواب پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اٹھو عزمؔ اس آتش شوق کو سرد ہونے سے روکو
اگر رک نہ پائے تو کوشش یہ کرنا دھواں کھو نہ جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے