بھارت بھوشن پنت کے اشعار
گھر سے نکل کر جاتا ہوں میں روز کہاں
اک دن اپنا پیچھا کر کے دیکھا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ایک جیسے لگ رہے ہیں اب سبھی چہرے مجھے
ہوش کی یہ انتہا ہے یا بہت نشے میں ہوں
خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے
سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا
مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے
-
موضوع : خاموشی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یاد بھی آتا نہیں کچھ بھولتا بھی کچھ نہیں
یا بہت مصروف ہوں میں یا بہت فرصت میں ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کتنا آسان تھا بچپن میں سلانا ہم کو
نیند آ جاتی تھی پریوں کی کہانی سن کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
جانے کتنے لوگ شامل تھے مری تخلیق میں
میں تو بس الفاظ میں تھا شاعری میں کون تھا
اس طرح تو اور بھی دیوانگی بڑھ جائے گی
پاگلوں کو پاگلوں سے دور رہنا چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہماری بات کسی کی سمجھ میں کیوں آتی
خود اپنی بات کو کتنا سمجھ رہے ہیں ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اس کو بھی میری طرح اپنی وفا پر تھا یقیں
وہ بھی شاید اسی دھوکے میں ملا تھا مجھ کو
-
موضوع : دھوپ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہر گھڑی تیرا تصور ہر نفس تیرا خیال
اس طرح تو اور بھی تیری کمی بڑھ جائے گی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہمارے حال پہ اب چھوڑ دے ہمیں دنیا
یہ بار بار ہمیں کیوں بتانا پڑتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
تو ہمیشہ مانگتا رہتا ہے کیوں غم سے نجات
غم نہیں ہوں گے تو کیا تیری خوشی بڑھ جائے گی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اب تو اتنی بار ہم رستے میں ٹھوکر کھا چکے
اب تو ہم کو بھی وہ پتھر دیکھ لینا چاہئے
اتنا تو سمجھتے تھے ہم بھی اس کی مجبوری
انتظار تھا لیکن در کھلا نہیں رکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں اپنے لفظ یوں باتوں میں ضائع کر نہیں سکتا
مجھے جو کچھ بھی کہنا ہے اسے شعروں میں کہتا ہوں
یہ سورج کب نکلتا ہے انہیں سے پوچھنا ہوگا
سحر ہونے سے پہلے ہی جو بستر چھوڑ دیتے ہیں
میں اب جو ہر کسی سے اجنبی سا پیش آتا ہوں
مجھے اپنے سے یہ وابستگی مجبور کرتی ہے
ہم وہ صحرا کے مسافر ہیں ابھی تک جن کی
پیاس بجھتی ہے سرابوں کی کہانی سن کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
میں تھوڑی دیر بھی آنکھوں کو اپنی بند کر لوں تو
اندھیروں میں مجھے اک روشنی محسوس ہوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
یہ کیا کہ روز پہنچ جاتا ہوں میں گھر اپنے
اب اپنی جیب میں اپنا پتہ نہ رکھا جائے
اسے اک بت کے آگے سر جھکاتے سب نے دیکھا ہے
وہ کافر ہی سہی پکا مگر ایمان رکھتا ہے
کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں
پہن لیتا ہوں جب دستار تو سر بھول جاتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
امیدوں سے پردہ رکھا خوشیوں سے محروم رہیں
خواب مرا تو چالس دن تک سوگ منایا آنکھوں نے
دامن کے چاک سینے کو بیٹھے ہیں جب بھی ہم
کیوں بار بار سوئی سے دھاگا نکل گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ورنہ تو ہم منظر اور پس منظر میں الجھے رہتے
ہم نے بھی سچ مان لیا جو کچھ دکھلایا آنکھوں نے
میں نے مانا ایک گہر ہوں پھر بھی صدف میں ہوں
مجھ کو آخر یوں ہی گھٹ کر کب تک رہنا ہے