Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fahmi Badayuni's Photo'

فہمی بدایونی

1952 | بدایوں, انڈیا

فہمی بدایونی کے اشعار

10.4K
Favorite

باعتبار

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا

کتنا آسان تھا علاج مرا

میں نے اس کی طرف سے خط لکھا

اور اپنے پتے پہ بھیج دیا

پریشاں ہے وہ جھوٹا عشق کر کے

وفا کرنے کی نوبت آ گئی ہے

خوشی سے کانپ رہی تھیں یہ انگلیاں اتنی

ڈلیٹ ہو گیا اک شخص سیو کرنے میں

خوں پلا کر جو شیر پالا تھا

اس نے سرکس میں نوکری کر لی

جب تلک قوت تخیئل ہے

آپ پہلو سے اٹھ نہیں سکتے

کاش وہ راستے میں مل جائے

مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

ٹہلتے پھر رہے ہیں سارے گھر میں

تری خالی جگہ کو بھر رہے ہیں

مر گیا ہم کو ڈانٹنے والا

اب شرارت میں جی نہیں لگتا

بدن کا ذکر باطل ہے تو آؤ

بنا سر پیر کی باتیں کریں گے

کٹی ہے عمر بس یہ سوچنے میں

مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے

آپ تشریف لائے تھے اک روز

دوسرے روز اعتبار ہوا

آج پیوند کی ضرورت ہے

یہ سزا ہے رفو نہ کرنے کی

اسے لے کر جو گاڑی جا چکی ہے

میں شاید اس کے نیچے آ رہا ہوں

جو کہا وہ نہیں کیا اس نے

وہ کیا جو نہیں کہا اس نے

نگاہیں کرتی رہ جاتی ہیں ہجے

وو جب چہرہ سے املا بولتا ہے

شہسواروں نے روشنی مانگی

میں نے بیساکھیاں جلا ڈالیں

کچھ نہ کچھ بولتے رہو ہم سے

چپ رہو گے تو لوگ سن لیں گے

پھولوں کو سرخی دینے میں

پتے پیلے ہو جاتے ہیں

لیلیٰ گھر میں سلائی کرنے لگی

قیس دلی میں کام کرنے لگا

مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا

میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

جس کو ہر وقت دیکھتا ہوں میں

اس کو بس ایک بار دیکھا ہے

بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا

کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں

میں چپ رہتا ہوں اتنا بول کر بھی

تو چپ رہ کر بھی کتنا بولتا ہے

توڑے جاتے ہیں جو شیشے

وہ نوکیلے ہو جاتے ہیں

سخت مشکل تھا امتحان غزل

میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے

پھر اسی قبر کے برابر سے

زندہ رہنے کا راستہ نکلا

کہیں کوئی کماں تانے ہوئے ہے

کبوتر آڑے ترچھے اڑ رہے ہیں

اچھے خاصے قفس میں رہتے تھے

جانے کیوں آسماں دکھائی دیا

یار تم کو کہاں کہاں ڈھونڈا

جاؤ تم سے میں بولتا ہی نہیں

مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے

بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے

ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے

ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں

ترے موزے یہیں پر رہ گئے ہیں

میں ان سے اپنے دستانے بنا لوں

چھت کا حال بتا دیتا ہے

پرنالے سے گرتا پانی

میں تو رہتا ہوں دشت میں مصروف

قیس کرتا ہے کام کاج مرا

تری تصویر، پنکھا، میز، مفلر

مرے کمرے میں گردش کر رہے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے