Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Husain Sajid's Photo'

غلام حسین ساجد

1952 | ملتان, پاکستان

غلام حسین ساجد کے اشعار

باعتبار

ایک خواہش ہے جو شاید عمر بھر پوری نہ ہو

ایک سپنے سے ہمیشہ پیار کرنا ہے مجھے

اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا

تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے

مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے

یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے یہ آگ اک شہر کے لیے ہے

راس آتی ہی نہیں جب پیار کی شدت مجھے

اک کمی اپنی محبت میں کہیں رکھوں گا میں

اس کے ہونے سے ہوئی ہے اپنے ہونے کی خبر

کوئی دشمن سے زیادہ لائق عزت نہیں

یہ آب و تاب اسی مرحلے پہ ختم نہیں

کوئی چراغ ہے اس آئنے سے باہر بھی

راس آئی ہے نہ آئے گی یہ دنیا لیکن

روک رکھا ہے مجھے کوچ کی تیاری نے

ہم مسافر ہیں گرد سفر ہیں مگر اے شب ہجر ہم کوئی بچے نہیں

جو ابھی آنسوؤں میں نہا کر گئے اور ابھی مسکراتے پلٹ آئیں گے

حکایت عشق سے بھی دل کا علاج ممکن نہیں کہ اب بھی

فراق کی تلخیاں وہی ہیں وصال کی آرزو وہی ہے

میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ

دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے

وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں

میں ایک مدت سے اس جہاں کا اسیر ہوں اور سوچتا ہوں

یہ خواب ٹوٹے گا کس قدم پر یہ رنگ چھوٹے گا کب لہو سے

ڈھونڈ لایا ہوں خوشی کی چھاؤں جس کے واسطے

ایک غم سے بھی اسے دو چار کرنا ہے مجھے

شرم آئی ہے مجھے اپنے قد و قامت پر

ماں کے جب ہونٹھ نہ پہونچے مری پیشانی تک

ستارۂ خواب سے بھی بڑھ کر یہ کون بے مہر ہے کہ جس نے

چراغ اور آئنے کو اپنے وجود کا راز داں کیا ہے

تڑپ اٹھی ہے کسی نگر میں قیام کرنے سے روح میری

سلگ رہا ہے کسی مسافت کی بے کلی سے دماغ میرا

رکا ہوں کس کے وہم میں مرے گمان میں نہیں

چراغ جل رہا ہے اور کوئی مکان میں نہیں

عشق کی دسترس میں کچھ بھی نہیں

جان من! میرے بس میں کچھ بھی نہیں

کبھی محبت سے باز رہنے کا دھیان آئے تو سوچتا ہوں

یہ زہر اتنے دنوں سے میرے وجود میں کیسے پل رہا ہے

مل نہیں پاتی خود اپنے آپ سے فرصت مجھے

مجھ سے بھی محروم رہتی ہے کبھی محفل مری

کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے

یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

میں رزق خواب ہو کے بھی اسی خیال میں رہا

وہ کون ہے جو زندگی کے امتحان میں نہیں

آج کھلا دشمن کے پیچھے دشمن تھے

اور وہ لشکر اس لشکر کی اوٹ میں تھا

اس اندھیرے میں چراغ خواب کی خواہش نہیں

یہ بھی کیا کم ہے کہ تھوڑی دیر سو جاتا ہوں میں

یہ سچ ہے مل بیٹھنے کی حد تک تو کام آئی ہے خوش گمانی

مگر دلوں میں یہ دوستی کی نمود ہے راحت بیاں سے

کسی نے فقر سے اپنے خزانے بھر لیے لیکن

کسی نے شہریاروں سے بھی سیم و زر نہیں پائے

نشاط اظہار پر اگرچہ روا نہیں اعتبار کرنا

مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کا سراغ ملتا ہے گفتگو سے

مرے مایوس رہنے پر اگر وہ شادماں ہے

تو کیوں خود کو میں اس کے واسطے برباد کر دوں

متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے

کھلا کہ اس بار بھی چمن پر گرفت دست نمو وہی ہے

عشق پر اختیار ہے کس کا

فائدہ پیش و پس میں کچھ بھی نہیں

جس قدر مہمیز کرتا ہوں میں ساجدؔ وقت کو

اس قدر بے صبر رہنے کی اسے عادت نہیں

یہ سچ ہے میری صدا نے روشن کیے ہیں محراب پر ستارے

مگر مری بے قرار آنکھوں نے آئنے کا زیاں کیا ہے

جی میں آتا ہے کہ دنیا کو بدلنا چاہئے

اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہوں میں

میں ہوں مگر آج اس گلی کے سبھی دریچے کھلے ہوئے ہیں

کہ اب میں آزاد ہو چکا ہوں تمام آنکھوں کے دائروں سے

لوٹ جانے کی اجازت نہیں دوں گا اس کو

کوئی اب میرے تعاقب میں اگر آتا ہے

Recitation

بولیے