Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

جوشش عظیم آبادی

1737 - 1801

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

جوشش عظیم آبادی کے اشعار

1.6K
Favorite

باعتبار

دھیان میں اس کے فنا ہو کر کوئی منہ دیکھ لے

دل وہ آئینہ نہیں جو ہر کوئی منہ دیکھ لے

طعنہ زن کفر پہ ہوتا ہے عبث اے زاہد

بت پرستی ہے ترے زہد ریا سے بہتر

یہ سچ ہے کہ اوروں ہی کو تم یاد کرو گے

میرے دل ناشاد کو کب شاد کرو گے

اللہ تا قیامت تجھ کو رکھے سلامت

کیا کیا ستم نہ دیکھے ہم نے ترے کرم سے

کفر پر مت طعن کر اے شیخ میرے رو بہ رو

مجھ کو ہے معلوم کیفیت ترے اسلام کی

ہیں دیر و حرم میں تو بھرے شیخ و برہمن

جز خانۂ دل کیجئے پھر قصد کدھر کا

کس طرح تجھ سے ملاقات میسر ہووے

یہ دعا گو ترا نے زور نہ زر رکھتا ہے

بھول جاتا ہوں میں خدائی کو

اس سے جب رام رام ہوتی ہے

صبا بھی دور کھڑی اپنے ہاتھ ملتی ہے

تری گلی میں کسی کا گزر نہیں ہرگز

بے گنہ کہتا پھرے ہے آپ کو

شیخ نسل حضرت آدم نہیں

وہ ماہ بھر کے جام مے ناب لے گیا

اک دم میں آفتاب کو مہتاب لے گیا

ہم کو تو یاد نہیں ہم پہ جو گزری تجھ بن

تیرے آگے کہے جس کو یہ کہانی آئے

ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں

بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو

یہ زیست طرف دل ہی میں یارب تمام ہو

کافر ہوں گر ارادۂ بیت الحرام ہو

ایسی مرے خزانۂ دل میں بھری ہے آگ

فوارہ چھوٹتا ہے مژہ سے شرار کا

یاں تک رہے جدا کہ ہمارے مذاق میں

آخر کہ زہر ہجر بھی تریاک ہو گیا

رکھتے ہیں دہانوں پہ سدا مہر خموشی

وے لوگ جنہیں آتی ہے گفتار محبت

تجھ سے ہم بزم ہوں نصیب کہاں

تو کہاں اور میں غریب کہاں

زلف اور رخ کی پرستش شرط ہے

کفر ہو اے شیخ یا اسلام ہو

زاہد نہ رہنے پائیں گے آباد مے کدے

جب تک نہ ڈھایئے گا تری خانقاہ کو

شرط انداز ہے اگر آئے

بات چھوٹی ہو یا بڑی منہ پر

احوال دیکھ کر مری چشم پر آب کا

دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا

اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں

مجھ سا نہ کوئی ہوگا پریشان روزگار

چھپ چھپ کے دیکھتے ہو بہت اس کو ہر کہیں

ہوگا غضب جو پڑ گئی اس کی نظر کہیں

بس کر یہ خیال آفرینی

اس کے ہی خیال میں رہا کر

اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف

شعلۂ حسن کا دھواں ہے زلف

تنک اودھر ہی رہ اے حرص دنیا

نہ دے تکلیف اس گوشہ نشیں کو

اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر

جو کچھ کہ تجھ سے ہو سکے تو در گزر نہ کر

داغ جگر کا اپنے احوال کیا سناؤں

بھرتے ہیں اس کے آگے شمع و چراغ پانی

ناخن یار سے بھی کھل نہ سکی

دانۂ اشک کی گرہ اے چشم

اپنا دشمن ہو اگر کچھ ہے شعور

انتظار وعدۂ فردا نہ کر

جو ترے سامنے آئے ہیں سو کم ٹھہرے ہیں

یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے کہ ہم ٹھہرے ہیں

جو آنکھوں میں پھرتا ہے پھرے آنکھوں کے آگے

آسان خدا کر دے یہ دشوار محبت

ترا شعر ؔجوشش تجھے ہے پسند

تو محتاج ہے کس کی تائید کا

چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے

بت پرستی بھی حق پرستی ہے

مر گئے ؔجوشش اسی دریافت میں

کیا کہیں ہے کون سی شے زندگی

انسان تو ہے صورت حق کعبے میں کیا ہے

اے شیخ بھلا کیوں نہ کروں سجدے بتاں کو

جو ہے کعبہ وہ ہی بت خانہ ہے شیخ و برہمن

اس کی ناحق کرتے ہو تکرار دونوں ایک ہیں

حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک

مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا

گلزار محبت میں نہ پھولے نہ پھلے ہم

مانند چنار آگ میں اپنی ہی جلے ہم

مونس تازہ ہیں یہ درد و الم

مدتوں کا رفیق ہے غم تو

دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو

تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ

خار زار عشق کو کیا ہو گیا

پاؤں میں کانٹے چبھوتا ہی نہیں

سجدہ جسے کریں ہیں وو ہر سو ہے جلوہ گر

جیدھر ترا مزاج ہو اودھر نماز کر

پھرتے ہیں کئی قیس سے حیران و پریشان

اس عشق کی سرکار میں بہبود نہیں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے