Manzar Lakhnavi's Photo'

منظر لکھنوی

- 1965

منظر لکھنوی کے اشعار

5.1K
Favorite

باعتبار

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے

درد کی درد سے دوا کیجے

تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو

لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے

ایک سر ہے کہ وہ ہر روز قلم ہوتا ہے

بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے

حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے

مدتوں بعد کبھی اے نظر آنے والے

عید کا چاند نہ دیکھا تری صورت دیکھی

جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے

کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

پھر منہ سے ارے کہہ کر پیمانہ گرا دیجے

پھر توڑیئے دل میرا پھر لیجئے انگڑائی

کبھی تو اپنا سمجھ کر جواب دے ڈالو

بدل بدل کے صدائیں پکارتا ہوں میں

وہ تو کہئے آپ کی الفت میں دل بہلا رہا

ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی

ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں

مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں

دنیا کو دین دین کو دنیا کریں گے ہم

تیرے بنیں گے ہم تجھے اپنا کریں گے ہم

محبت تو ہم نے بھی کی اور بہت کی

مگر حسن کو عشق کرنا نہ آیا

مجھے مٹا کے وہ یوں بیٹھے مسکراتے ہیں

کسی سے جیسے کوئی نیک کام ہو جائے

مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون

جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے

گھر کو چھوڑا ہے خدا جانے کہاں جانے کو

اب سمجھ لیجئے ٹوٹا ہوا تارا مجھ کو

یہ انسان نادیدہ الفت کا مارا

خدا جانے کس کس کو سجدہ کرے گا

آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو

ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں

ظلم پر ظلم آ گئے غالب

آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے

جگمگاتی تری آنکھوں کی قسم فرقت میں

بڑے دکھ دیتی ہے یہ تاروں بھری رات مجھے

مرگ عاشق پہ فرشتہ موت کا بدنام تھا

وہ ہنسی روکے ہوئے بیٹھا تھا جس کا کام تھا

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل

اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو

ہم وحشیوں کا مسکن کیا پوچھتا ہے ظالم

صحرا ہے تو صحرا ہے زنداں ہے تو زنداں ہے

مری رات کیوں کر کٹے گی الٰہی

مجھے دن کو تارے نظر آ رہے ہیں

دو گھڑی دل کے بہلانے کا سہارا بھی گیا

لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے

اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں

بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا

مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا

چمن میں ایک سے ایک اچھا آشیانا تھا

ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری

جہاں دو آدمی بھی ہیں چھڑی ہے داستاں میری

کسی آنکھ میں نیند آئے تو جانوں

مرا قصۂ غم کہانی نہیں ہے

چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کانٹے

بہار ہائے ہمارے لئے بہار نہیں

مجھے تو بخشئے اور جینے دیجے

مبارک آپ ہی کو آپ کا دل

اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں

پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں

ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے

اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے

ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے

عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے

ان سے جب پوچھا گیا بسمل تمہارے کیا کریں

ہنس کے بولے زخم دل دیکھا کریں رویا کریں

کیجیے کیوں مردہ ارمانوں سے چھیڑ

سونے والوں کو تو سونے دیجیے

اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں

گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں

برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں

بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ

کچھ ابر کو بھی ضد ہے منظرؔ مری توبہ سے

جب عہد کیا میں نے گھنگھور گھٹا چھائی

گلوں سے کھیل رہے ہیں نسیم کے جھونکے

قفس میں بیٹھا ہوا ہاتھ مل رہا ہوں میں

واعظ سے نہ پوچھوں گا کبھی مسئلۂ عشق

میں خوب سمجھتا ہوں جو ارشاد کریں گے

جمع ہم کرتے گئے چن چن کے تنکے باغ میں

اور نہ جانے کس کا کس کا آشیاں بنتا گیا

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں آنسو

غموں کی نچوڑی ہوئی آستیں ہوں

قفس میں جب ذرا جھپکی مری آنکھ

یہی دیکھا نشیمن جل رہا ہے

پوچھنے والے بھری بزم میں قاتل کو نہ پوچھ

نام تیرا ہی اگر لے لیا سودائی نے

سجدے کرتا جا رہا ہوں کوئے جاناں کی طرف

راستہ بتلا رہی ہے میری پیشانی مجھے

چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے

ذرا ہٹ جائیے گا درمیاں سے

بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے

صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے

شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

کہ دن بھر کی بیتی کو دہرا رہے ہیں

عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا

جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے