میر حسن کے اشعار
مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے
لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ
دکھا دیں گے چالاکی ہاتھوں کی ناصح
جو ثابت جنوں سے گریباں رہے گا
لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا
دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ
ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیر و کعبہ ہی کو جانا کچھ نہیں لازم غرض
جس طرف پائی خبر اس کی ادھر کو اٹھ گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا
نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو ادھر کو چلیے
مر گیا ہوتا نہ ہوتی قہر میں شامل جو مہر
صحت دل اس دوائے معتدل نے کی غرض
مانند عکس دیکھا اسے اور نہ مل سکے
کس رو سے پھر کہیں گے کہ روز وصال تھا
شیخ تو نیک و بد دختر رز کیا جانے
وہ بچاری تو ترے پاس نہ آئی نہ گئی
دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یاں لوگ عجب عجب ملیں گے
-
موضوع : دنیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب لگے ہوں گے جدا حضرت دل ہم نے کہا
پھر بھی ملئے گا کبھی ہم سے کہا یا قسمت
جان و دل ہیں اداس سے میرے
اٹھ گیا کون پاس سے میرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بندا بتوں کا کس کے کہے سے ہوا یہ دل
حق کی طرف سے کیا اسے الہام کچھ ہوا
کہتا ہے تو کہ تجھ کو پاتا نہیں کبھی گھر
یہ جھوٹ سچ ہے دیکھوں آج اپنے گھر رہوں گا
یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا
تاکہ عبرت کریں اور غیر نہ دیکھیں تجھ کو
جی میں آتا ہے نکلوائیے دو چار کی آنکھ
میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ
گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز
نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے
وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چاہا تھا غرض میں نے عشق ایسے ہی دلبر کا
گر مجھ پہ بہت گزرا غم اس میں تو کم گزرا
اپنے کہنے میں تو دل مطلق نہیں کس سے کہیں
کیا کریں اے ناصحو کچھ تو کرو ارشاد تم
غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد
غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا جانئے کہ باہم کیوں ہم میں اور اس میں
موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا
وصل میں بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ
کہ تجھے ایسا بھلا دوں کہ بہت یاد کرے
سو سو طرح کے وصل نے مرہم رکھے ولے
زخم فراق ہیں مرے ویسے ہی تر ہنوز
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بس اب چوپڑ اٹھاؤ اور کچھ باتیں کریں صاحب
جو میں جیتا تو تم جیتے جو تم ہارے تو میں ہارا
ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی
ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ
سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ
جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا تھا کہ آج ناقہ بے ساربان پایا
مجنوں کے ہاتھ ہم نے اس کی مہار دیکھی
گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا
کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا
کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا