Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نظام رامپوری

1819 - 1872 | رام پور, انڈیا

نظام رامپوری کے اشعار

18.4K
Favorite

باعتبار

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئنے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ

ہے خوشی انتظار کی ہر دم

میں یہ کیوں پوچھوں کب ملیں گے آپ

تیرے ہی غم میں مر گئے صد شکر

آخر اک دن تو ہم کو مرنا تھا

اب تم سے کیا کسی سے شکایت نہیں مجھے

تم کیا بدل گئے کہ زمانا بدل گیا

اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہو چکی

آنکھوں میں نیند بھی ہے بہت رات کم بھی ہے

بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے

گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی

مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے

گر کوئی پوچھے مجھے آپ اسے جانتے ہیں

ہو کے انجان وہ کہتے ہیں کہیں دیکھا ہے

کہیں اس بزم تک رسائی ہو

پھر کوئی دیکھے اہتمام مرا

اب کیا ملیں کسی سے کہاں جائیں ہم نظامؔ

ہم وہ نہیں رہے وہ محبت نہیں رہی

اٹھتا ہوں اس کی بزم سے جب ہو کے ناامید

پھر پھر کے دیکھتا ہوں کوئی اب پکار لے

ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ

ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے

سچ ہے نظامؔ یاد بھی اس کو نہ ہوں گے ہم

پر کیا کریں وہ ہم سے بھلایا نہ جائے گا

جو کچھ اشارے ہوتے ہیں سب دیکھتا ہوں میں

ساری شرارت آپ کی میری نظر میں ہے

یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر

اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

یوں تو روٹھے ہیں مگر لوگوں سے

پوچھتے حال ہیں اکثر میرا

نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب

تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ

یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے

کیا کسی سے کسی کا حال کہیں

نام بھی تو لیا نہیں جاتا

کیا دعا روز حشر کی مانگیں

وہاں پر بھی یہی خدا ہوگا

تجھ سے ہی چھپاؤں گا غم اپنا

تجھ سے ہی کہوں گا گر کہوں گا

کس کا ہے انتظار کہاں دھیان ہے لگا

کیوں چونک چونک جاتے ہو آواز پا کے ساتھ

میں نہ کہتا تھا کہ بہکائیں گے تم کو دشمن

تم نے کس واسطے آنا مرے گھر چھوڑ دیا

وہ اشاروں میں اس کا کہنا ہائے

دیکھو اپنے پرائے بیٹھے ہیں

کس قدر ہجر میں بے ہوشی ہے

جاگنا بھی ہے ہمارا سونا

تم ہو گئے کچھ اور نہ کچھ اور ہم ہوئے

کچھ تو سبب ہوا ہے کہ وہ ربط کم ہوئے

تیرا ملنا تو ہے مشکل مگر اتنا تو ہوا

اپنا مرنا مجھے آساں نہ ہوا تھا سو ہوا

چھیڑ ہر وقت کی نہیں جاتی

روز کا روٹھنا نہیں جاتا

اس کی الفت میں جیتے جی مرنا

فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے

ہوئے نمود جو پستاں تو شرم کھا کے کہا

یہ کیا بلا ہے جو اٹھتی ہے میرے سینے سے

یہ ہوا سرد چلی اور یہ بادل آئے

کہو ساقی سے کہ ساغر چلے بوتل آئے

خوشبو وہ پسینے کی تری یاد نہ آ جائے

گل کیسا کبھی عطر بھی سونگھا نہ کریں گے

حق بات تو یہ ہے کہ اسی بت کے واسطے

زاہد کوئی ہوا تو کوئی برہمن ہوا

منتظر ہوں کسی کے آنے کا

کس کی آنکھوں میں آ کے خواب رہے

دیکھ کر غیر کو شوخی دیکھو

مجھ سے کہتے ہیں کہ دیکھا تو نے

آئے بھی وہ چلے بھی گئے یاں کسے خبر

حیراں ہوں میں خیال ہے یہ یا کہ خواب ہے

لپٹا کے شب وصل وہ اس شوخ کا کہنا

کچھ اور ہوس اس سے زیادہ تو نہیں ہے

جو کہ ناداں ہے وہ کیا جانے تری چاہت کی قدر

اے پری دیوانہ بننا کام ہے ہشیار کا

رات تھا وصل آج ہجر کا دن

کچھ زمانے کا اعتبار نہیں

آنکھیں پھوٹیں جو جھپکتی بھی ہوں

شب تنہائی میں کیسا سونا

میرے ملنے سے جو یوں ہاتھ اٹھا بیٹھا تو

نہیں معلوم کہ دل میں ترے کیا بیٹھ گیا

آپ دیکھیں تو مرے دل میں بھی کیا کیا کچھ ہے

یہ بھی گھر آپ کا ہے کیوں نہ پھر آباد رہے

ان کو میں اس طرح بھلاؤں نظامؔ

یاد کس بات پر نہیں آتے

دو دن بھی اس صنم سے نہ اپنی نبھی کبھی

جب کچھ بنی تو فضل خدا سے بگڑ گئی

منظور کیا ہے یہ بھی تو کھلتا نہیں سبب

ملتا تو ہے وہ ہم سے مگر کچھ رکا ہوا

اب تو سب کا ترے کوچے ہی میں مسکن ٹھہرا

یہی آباد ہے دنیا میں زمیں تھوڑی سی

راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی

تری دیوار ہے اور سر میرا

یہ دن تو صرف آپ کے وعدوں میں ہو گئے

اب دن نیا نکالئے اقرار کے لیے

بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں

کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے