aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ",iUoM"
قمر جلال آبادی
1917 - 2003
شاعر
اوم بھتکر مغلوب
born.1991
پروین ام مشتاق
born.1866
حسرتؔ موہانی
1878 - 1951
اسرار الحق مجاز
1911 - 1955
ابن انشا
1927 - 1978
عزم بہزاد
1958 - 2011
اوم کرشن راحت
born.1925
احسان دانش
1914 - 1982
سراج اورنگ آبادی
1712 - 1764
اختر الایمان
1915 - 1996
شیواوم مشرا انور
born.1972
بیخود دہلوی
1863 - 1955
مظفر وارثی
1933 - 2011
آل احمد سرور
1911 - 2002
مصنف
بھلے دنوں کی بات ہےبھلی سی ایک شکل تھی
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھانہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہےپر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اپنے سب یار کام کر رہے ہیںاور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیادیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
آم پر اشعار
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
عام لسانیات
گیان چند جین
زبان
اردو مرثیہ نگاری
ام ہانی اشرف
مرثیہ تنقید
جدید ابلاغ عام
پروفیسر مہدی حسن
صحافت
طب یونانی میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب
حکیم محمد عبدالرزاق
طب یونانی
جواہر انیس
میر انیس
مرثیہ
طبیبہ ام الفضل
دیوان غالب
مرزا غالب
دیوان
تاریخ ادب اردو
نور الحسن نقوی
تاریخ
اردو قصیدہ نگاری
قصیدہ تنقید
عام فکری مغالطے
علی عباس جلالپوری
تحقیق و تنقید
توبۃ النصوح
ڈپٹی نذیر احمد
معاشرتی
پیر کامل
عمیرہ احمد
ناول
جمیل جالبی
ایک عام آدمی کا خواب
رشید امجد
خلافت و ملوکیت
سید ابوالاعلیٰ مودودی
اسلامیات
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیںتہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیںسو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیاہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آآ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچےمجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
عمر گزرے گی امتحان میں کیاداغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیںترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگیوہ کن خوابوں سے جانے آشنا نا آشنا ہوگی
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سواراحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دوستی عام ہے لیکن اے دوستدوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books